یہ ایک نجی ٹی وی چینل کا پروگرام ہے۔ وائس آف امریکہ کا میزبان واشنگٹن ڈی سی کے ایک خاندان کا تعارف کراتا ہے۔ وجہ تعارف یہ ہے کہ سٹیلائٹ کے اس دور میں بھی یہ خاندان ٹیلی وژں کی ضرورت سے بے نیاز ہے۔ 20 برس کا نوجوان گویا ہوتا ہے اس “ڈبے” نے ہم سے ہماری پرائیویسی چھین لی ہے۔ یہ ہمارے اعصاب پر بھوت بن کر سوار ہو گیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے مستقبل کو یہ ڈبہ اپنی گرفت میں لے لے۔ اس دوران اس نوجوان کی ماں جو قریب ہی کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی تیزی سے آکر کیمرے کے سامنے بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر بولی “ہم نہیں چاہتے کوئی ہم سے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی چھین لے ہم بہت پرسکون ہیں” ٹی وی کا نمائندہ سوال کرتا ہے ” اتنی تیز تر دنیا میں پھر آپ کی پاس معلومات کا ذریعہ کیا ؟؟پ فوری معلومات سے تو محروم رہتے ہوں گے ؟؟” اس پر نوجوان نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے اخبار و جرائد کی طرف اشارہ کیا اور بولا کہ ” یہ ہماری معلومات کے لئے کافی ہیں ویسے ہمیں معلومات کا جنون بھی نہیں ہے، ہم اتنے باخبر ہیں جتنا ہمارے لئے ناگزیر ہے ” پھر آپکی تفریح کا کیا ذریعہ ہے “ٹی وی میزبان کے سوال پر نوجوان گویا ہوا “میں پیانو بجاتا ہوں یہ میرا بہترین دوست ہے پڑھائی کے بعد کچھ وقت فارغ ہوتا ہے تو نوجوانوں کے ایک کلب میں چلا جاتا ہوں جہاں صحت مند سرگرمیاں میرے اندر جینے کی نئی امنگ پیدا کرتی ہیں ھان یہ میری ماں ایک رفاہی ادارے کی رضاکار ممبر ہیں بہر حال ہم بہت خوش ہیں اور ہمیں اس ڈبے کی ضرورت بھی نہیں ہم نہیں چاہتے کہ اپنی آزادی کو اس ڈبے (ٹی وی ) ہاتھوں گروی رکھ دیں” اور پھر ٹی وی کے اسی پروگرام میں اور کئی خاندانوں کا تعارف پیش کیا گیا جو کیبل اور ٹی وی کی ضرورت سے بے نیاز ہیں۔
یہ یورپ کے خاندان ہیں جو ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث بے یقینی اور خدشات کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تیز رفتار ترقی نے مشرق تو مشرق خود مغرب کے روایتی کیونکہ برطانیہ ہو یا روس اور چین یہ اپنے آپکو نیو کلیائی اسلحے سے پاک کرنے کے جتنے بھی وعدے کر لیں ان وعدوں پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے جتنے ذخیروں کو تباہ کیا جا رہا ہے اتنے ہی نئے نئے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروجود میں آرہے ہیں۔ چاہے لاکھ بینالاقوامی معاہدے کئے جاتے رہیں اور اخلاقی ضابطے بنائے جاتے رہیں یہ جن قابو میں آنے والا ہے نہ انکے منفی اثرات سے کلی چھٹکارا ممکن ہے اس جدید ٹیکنالوجی پر لاحول پڑھ لینا اور ریت میں سر چھپانا مسئلے کا حل نہیں۔
مسلم معاشرے پر بھی اس ابلاغی ٹیکنالوجی کے بے حد منفی اثرات ہیں اور تیسری دنیا کی بہت سی روایات ٹوٹ رہی ہیں اور یہ ذرائع ابلاغ اسلام کا ورلڈ ویو (world view) نہ صرف تبدیل کر رہے ہیں بلکہ اسے مجروح کر رہے ہیں۔ جرمن مسلم اسکالر مراد ھوف مین اس کا حل یہ بتاتے ہیں “نوجوانوں کو نقصاندہ بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے انہیں جدید ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مسئلے کا حل نہیں —جدید دور کے لوگوں کو اس کے بجائے مامونیت (immunization) کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے یعنی اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش یہی وہ کوشش ہے جسے “علم کی اسلامی تشکیل” کہا جا سکتا ہے۔ ہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تصور جہاں کی اتنی مضبوط بنیاد فرہم کر سکتے ہیں وہ درست سوالات اور کسوٹی کے ساتھ مغربی سائنس کا مقابلہ کر سکیں !!!!!
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی بجائے خود شیطان نہیں ہے کہ ہم ‘تعوذ’ پڑھ کر اس سے چھٹکارا حاصل کر لیں- اس وقت کا چیلنج یہ ہے کہ اس تمام تر جدیدیت میں ہمیں صحت مند رویوں کے ساتھ خود کو اپنے نظریات اور اقدار کو کیسے محفوظ رکھنا ہے؟
کیونکہ اس تہذیبی یلغار کی سب سے زیادہ ضربیں ہمارا خاندانی نظام سہہ رہا ہے –ہمیں اپنے خاندان کے دفاع کی اسوقت پہلے سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ خاندان کا دفاع ہی بحیثیت مجموعی سماج کا دفاع ہے۔ اپنے گھروں کے اندر جسقدر ہم اسلامی روایات و اقدار کو فروغ دینے میں کامیاب ہوتے ہیں اتنے ہی ہم اس ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بچ سکیں گے ہمیں چوکس رہنا ہوگا کہ انٹرنیٹ اور ٹی وی ہمارے ہمارے خاندانی رشتوں کے عدم استحکام کا باعث تو نہیں بن رہے ہیں۔ ہم اپنے مسائل اہل خانہ کے ساتھ شیئر کرنے کے بجائے online رہنا پسند کرتے ہیں اگر اہل خانہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے کھانے کے دوران بھی ہماری نگاہیں مسلسل ٹیوی کا طواف کر رہی ہیں اور جسوقت ہمارے بچے ہم سے گفتگو کے منتظر ہیں ہم موبائل فون کے موصول شدہ پیغامات اور گفتگو میں مصروف رہتے ہیں تو یقیناً ہم گلوبلائزیشن کا شکار ہیں کیونکہ یہ ایجادات بہرحال ہمارے روابط کو ایک طرف بڑھا رہی ہیں تو دوسری طرف کچھ اہم روابط کو کمزور کرنے کا بھی باعث ہیں۔ اگر ہم پہلو کے ساتھی کو مسلسل نظرانداز کر کے موبائل پر مصروف ہیں یا بچے فارغ وقت والدیں کے ساتھ گزارنے کے بجائے نیٹ پر گزارنا پسند کرتے ہیں تو یقیناً ہم عالمگیریت کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وقت والدین کا کردار بہت اہم کسوٹی ہے۔ ان تمام حملوں کے جواب میں والدین کا جوابی مثالی رویہ ،جب تعیشات کو ضروریات بنا کر مادہ پرستانہ طرز زندگی کو لازم کیا جا رہا ہے۔ تو والدین سہولیت اور ضروریات کا تعین کر کے بتا سکتے ہیں کہ زندگی کی حقیقی خوشیاں زیادہ سہولتوں کے حصول میں مضمر نہیں اور اکاقی اقدار کی بلندی، معیار زندگی کی بلندی سے بدر جہا بہتر ہے۔
معلومات کے جس سمندر میں ہم زندہ ہیں ایسے میں بڑوں کی بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں تجزیہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اور معلومات کو قبول کرنے کے بجائے صحیح اور غلط کی شناسائی ین میں پیدا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی گلوبلائزیشن کے دور میں بحیثیت مسلمان اپنے عقائد اور نظریات پر قائم رہنا اور قرآن جو نظریہ حیات اور تصور دنیا ہمیں دیتا ہے اپنی نئی نسل کو ان عقائد اور تصورات پر پختہ کرنا ہی تمام شیطانی حربوں اور تدبیروں کا حل ہے۔ اس لئے ایک مستحکم خاندانی نظام اسوقت ہماری اولین ضرورت ہے۔
بہت خوب