اے قوم!
وطن عزیز پاکستان اس وقت فتنوں کی زد میں ہے ۔قتل و غارت ،بد امنی اور طرح طرح کے فسادات نے ہمیں گھیر رکھا ہے ۔ بے حیائی کا منہ زور طوفان، سڑکوں ،چوراہوں سے ہوتا ہوا میڈیا کے ذریعے ہمارے گھروں میں داخل ہو گیا ہے ۔تمام تر نعمتوں کے ہوتے ہوئے پاکستانی قوم غربت اور افلاس کاشکار ہی۔ مہنگائی کا سیلاب کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ہر طرف ظلم اور اندھیر نگری ہے ۔غریب کے لیے انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ۔بے حساب ٹیکس ،رشوت اوراقرباء پروری نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور کرپشن وبدیانتی نے ادارے تباہ کر دیے ہیں۔گاڑیاں بھر کر چلتی ہیں لیکن ریلوے خسارے کا شکار ہی،جہازوں میں سیٹ نہیں ملتی لیکن پی آئی اے تباہ ہو رہی ہے ۔سڑکیں روز بنتی ہیں اور ٹوٹ جاتی ہیں ۔لیکن ہر چند میل کے بعد نا جائز ٹول پلازے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
پاکستانی قوم ہی نہیں سا ری امت مسلمہ انتشار اور مادیت پرستی کا شکار ہے اور کفار کی جسارتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ
٭ کبھی قرآن پاک کو ’دھشت گرد‘قرار دے کر جلا رہے ہیں۔
٭ کبھی نبیؐ کو (جو رحمۃ للعلمین ہیں )دھشت گردی کا پیامبر قرار دے کر ان کے خاکے اڑا رہے ہیں۔
٭ یہود و ہنود بھوکے بھیڑیوں کی طرح امت مسلمہ پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔بوسنیا ،فلسطین ،کشمیر ،عراق ،افغانستان کو خون میں نہلا دینے کے بعد اب پاکستان میں بھی ڈرون حملے ،بم دھماکے اور سر عام قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔ہمارے بد نصیبی یہ ہے کہ ہمارے محافظ وہ ہیں ۔۔۔
٭ جو قاتلوں کو ہاتھ جوڑ کر رہا کر دیتے ہیں۔
٭ جو خونی بھیڑیوں کو’ہلال پاکستان ‘ کے اعزاز سے نوازتے ہیں۔
٭ جو ان سے ڈالر وصول کر کے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو فروخت کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
٭ چوروں کے ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ڈاکہ زنی اور چوری سے زندگی اجیرن ہے۔
سچ فرمایا تھا پیارے نبی کریم ؐ نے ’’جس کا محافظ کوئی نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے ‘‘آج یوں لگتا ہے یہ قوم بے آسرا ہو گئی ہے ! اس کا کوئی والی وارث نہیں ۔حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ۔کیا ہم آزاد ہیں؟
غور کیجئے ! ہم ان حالات تک کیوں پہنچے ؟ہم نے یہ ملک’’ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ ‘‘کہہ کر حاصل کیا تھا ۔لیکن اﷲ سے وعدہ خلافی کی اور اسے امریکہ کے پاس گروی رکھ دیا تواﷲ نے ایک جانب ظالم کفار کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا اوردوسری جانب ان کے باجگزار ،گماشتے اور کرپٹ افراد ہمارے حکمران بنا دئیے ۔جنہوں نے اسلام کو دھشت گرد ثابت کر دیا اور طاغوت کا نظام ہمارے اوپر مسلط کر کے ہمیں بزدل اور بھکاری بنا دیا ۔اس کے لیے ضروری ہے ہم سب اس بات کا عہد کریں کہ ہم نے حالات کی مثبت تبدیلی کے لیے انقلابی جدوجہد کرنی ہے۔
٭ملک کو چوروں،منافقوں اور کافروں کے کاسہ لیس حکمرانوں سے نجات دلانی ہے۔
تبدیلی کیسے آئے گی؟
٭ اگر ہمت ہے تو تبدیلی کی قیادت خود کیجئے ۔ورنہ تبدیلی کے لیے سرگرم ایسی جماعت کا ساتھ دیجئے جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں۔
٭جو اﷲ تعالیٰ پر کامل اور غیر متزلزل یقین رکھتی ہے اور جس کا مقصود اﷲ کی رضا ہے۔
٭ جس کے پاس علم دین اور جدید علوم سے آراستہ ،صالحیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد موجود ہیں۔
٭ جو ہر قسم کے علاقائیت ،لسانیت اور فرقہ وارانہ جذبات سے بالا تر ہو کر پوری قوم کی راہنمائی کر سکتی ہو۔
٭ جو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتی ہو۔
٭ جو ہر مظلوم کی پریشانی کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہو اور ہر مصیبت کے وقت خدمت خلق کے لیے کمر بستہ ہو۔
٭ تن من دھن سے کام کرنے والے جس کے کارکنان قوم اور ملت کی خدمت کے لیے ہر جگہ ہر وقت عوام کے درمیان موجود رہتے ہوں۔
٭ جو پوری ملت اسلامیہ کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہو اور ان کے مسائل اور حل کے لیے کوشاں رہتی ہو۔
یہ جماعت ۔۔جماعت اسلامی پاکستان ہے۔
جماعت اسلامی کا پیغام اورنصب العین
٭ کار رسالت ادا کرنا ،کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔’’تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو تا کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو‘‘ (سورہ آل عمران10)
٭ ہمارا پیغام :سارے انسانوں کے لیے یہ ہے کہ جو نبی ؐ کا تمام انسانوں /عربوں کے لیے تھا ’’مجھ سے ایک کلمہ لے لو تو عرب و عجم تمھارے زیر نگیں ہوں گی‘‘
٭ یعنی کلمہ پڑھنے کے بعد اﷲ کو الہ اور خدا مان لینے اور محمد ؐ کو رسول مان لینے کے بعد یہ جائز نہیں کہ زندگی کے کسی حصے میں اﷲ و رسول ؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کے خلاف چلو۔
٭ ان اعبدوااﷲ واجتنبوا الطاغوت ۔’’اﷲ کی بندگی اختیار کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو‘‘
٭ ادخلو فی السلم کا فۃ ’’پورے کے پورے دین کے اندر داخل ہو جائو‘‘
بنی اسرائیل کی طرح دو رنگی زندگی نہ گزارو جن کے بارے میں اﷲ نے فرمایا۔
افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘
کہ نماز ،روزہ کے احکام تو قرآن سے لیں اور عدالت و حکومت کے مغرب سے ،تعلیمی نظام مغرب کا ،معاشی نظام یہود کا۔
٭ یہ تناقص ہے ،منافقت ہے کہ ہوں تو ہم مسلمان ،کلمہ اﷲ کا پڑھیں لیکن عملی زندگیاں دورنگی ہوں،کفرو اسلام کا ملغوبہ ہوں۔
٭ اپنے اوپر غیر اسلامی نظام کا تسلّط پا کر اگر ہم مضطرب نہ ہوں اور اپنے ووٹوں سے اسے سہارا ینے والے ہوں ۔یہ سب کرنے والوں کے لیے بہت بڑی وعید ہے۔
فما جزآء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیوۃ الدنیا ج و یوم القیامۃ یردون الی اشد العذاب ط وما اﷲ بغافل عما تعلون ہ
’’پھر تم میں سے جو ایسا کریں ،ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دئیے جائیں ؟ اﷲ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘ (سورہ بقرہ5)
۔۔۔اولئک الذین اشترو الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینصرون
’’یہ وہ لوگ ہیں ،جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے ۔لہذا نہ ان کی سزا میں کوئی تحفیف ہو گی اور نہ انھیں کوئی مدد پہنچ سکے گی‘‘
ہماری دعوت یہ ہے کہ عوام الناس اور خواص سب یہ تناقص دور کریں اور ہمارے ساتھ مل کر دین اسلام کو غالب کرنے اور ملک و ملّت کو ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔
ہماری سرگرمیاں :
٭ قرآن کے نور اور انبیاء کے پیغام کو عام کرنے ا ور حکومت الہیہ کے قیام کے لیے ہم گلی گلی ،محلہ محلہ قرآن کلاسز کرتے ہیں ،دعوت دیتے ہیں۔
٭اس وقت پاکستان بھر سے 92اضلاع میں3000خواتین کارکنان میدان عمل میں ہیں۔
٭فہم قرآن اور ترجمہ قرآن کے 2366مراکز قائم ہیں۔
٭ نسل نو کی سیرت سازی کے لیے 6849مقامات پر دروس ہو رہے ہیں۔
٭ قرآن کی تدریس و تبلیغ کے لیے 20قرآن انسٹیٹیوٹ ، 30 قرآن سینٹراور 11جامعات قائم ہیں۔
٭ دیگر اداروں میں حلقہ درس اور تقسیم کتب کے ذریعے دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ادا کی جا رہی ہے۔
٭ وطن عزیز کی٪ 72آبادی پر مشتمل 1194دیہات میںقرآن کا پیغام پہنچانے کے لیے 12,298اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں۔
٭ غریب اور نادار بچوں میں تعلیم کو عام کرنے اور جہالت مٹانے کے لیے 134کمیونٹی اسکول قائم ہیں۔
٭ہر مشکل گھڑی (سیلاب ،زلزلہ ) میں ہزاروں مخلص رضاکار کا رکنان مرد و خواتین خدمت کے لیے قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہو تے ہیں۔
٭ اس کے علاوہ سیاسی سیل ،امور خارجہ ،نشرواشاعت ،ملازمت پیشہ خواتین اپنے اپنے شعبے میں سرگرم عمل ہیں۔
تنظیم سازی:
تمام درج بالا سر گرمیوں کے ذریعے سیکھ لینے والے افراد کو منظم کر کے ان کی تربیت کرتے ہیں اور بڑے مقصد کے لیے تیار کر کے انہیں میدان میں اتارتے ہیں تاکہ اس اجتماعی جدوجہد کے ذریعے فاسق ،فاجر اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کی جا سکے اور ان کی جگہ اﷲ کی حاکمیت اعلیٰ قائم ہو جائے اور ایسے دیندار، بے داغ کردار کے حامل رضائے الہی ٰ کے جذبے سے سر شار افراد کو آگے لانے کی کوشش کی جائے جو۔
٭ دشمنان دین کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔
٭ کفار کی ایک کال پر ڈھیر نہ ہو جائیں بلکہ ان کے اندر توکل الی اﷲ اور اعتماد ہو ۔اور جو کفار کے ساتھ اتحاد بنا کر مسلمانوں کو لہو نہ بہائیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفار کے دانت کھٹے کریں۔
٭ جو ایسی حکومت قائم کر سکیں جو خلافت راشدہ کا ممکنہ حد تک نمونہ ہو۔
٭ جو ملک کے اندر نظام عدل نافذ کر سکیں ۔جس کی نظر میں امیر ،غریب ،شہری ،دیہاتی کا کوئی فرق نہ ہو۔
٭ جو ہر شہری کو بنیادی ضروریات منصفانہ فراہم کرے اور اﷲ کے دین کے قیام کی عملی تصویر پیش کرے ۔ایک ماڈل اسلامی ریاست جو تکمیل شہادت کا
ذریعہ بنے۔
٭ جو قوم اور اس کے وسائل کی حفاظت کریں ۔اور اپنی امانت و دیانت کے ذر یعے قوم کو بھوک اور مہنگائی سے نجات دلا سکیں۔
٭ جو نظام تعلیم میں قوم کا رخ صحیح قبلے کی طرف موڑ سکیں۔
آپ کا دل کیا کہتا ہی؟ کیا ایسے افراد اور جماعت کا ساتھ دینا چاہیے؟
ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں ۔وقت ،مال ،صلاحیتیں اس راہ میں لگائیں ۔جب سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے حصے کا فرض ادا کریں گے تو ان شاء اﷲ ظلم کے بادل چھٹیں گے اور امن و عدل کا سورج طلوع ہو گا ۔اور ایک عورت کراچی سے لاہور ،ملتان تنہا سفر بھی کرے گی تو اسے اﷲ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا ۔ان شاء اﷲ ۔
بولیں !
کیا ہمارا ساتھ دیں گے !
آئیے جماعت اسلامی کے ممبر بن کر عملی جدوجہد میں حصہ لیں تا کہ ہمارا ملک اسلام کے نظام عدل و امن کی بہار دیکھ سکے اور ہم اﷲ کے حضور سرخرو ہو سکیں۔
اور اس دعوت کی راہ میں روڑے اٹکانے والے اللہ کے ہا ں اپنا جواب سوچ لیں۔
فیس بک تبصرے