خبر یہ ہے کہ جامعہ پنجاب نے بدنام زمانہ اور جامعہ پنجاب میں منفی شہرت کے حامل پروفیسر افتخار بلوچ کو مورخہ 21 اپریل 2011کو جامعہ کی ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار نے اس بات کی تصدیق کردی ہے۔ یہ پروفیسر افتخار بلوچ کون ہے؟ یہ وہی پروفیسر افتخار بلوچ ہیں جن کا نام گزشتہ سال اپریل ہی کے مہینے میں پاکستانی میڈیا پر چھایا رہا۔پروفیسر افتخار بلوچ صاحب جامعہ پنجاب کے شعبہ ارتھ سائیسنز کے ہیڈ تھے اور یونیورسٹی مین ان کی شہرت اچھی نہیں تھی وہ طالبات اور ساتھی خواتین پروفیسرز و لیکچرارز میں بدنام تھے انہوں نے اپنے آفس کے ساتھ ملحقہ کمرے میں ایک بیڈروم بھی بنا رکھا تھا۔انکے بارے میں شکایات تھیں کہ وہ طالبات کو نمبر بڑھانے اور پاس کرنے کے عوض بدکاری کی دعوت دیتے تھے اور کئی بار انہوں نے طالبات کے ساتھ دست درازی بھی کی۔ کئی طالبات نے ان کی شکایات شیخ جامعہ تک پہنچائی لیکن ان کے اثر رسوخ کے باعث ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوسکی۔ گذشتہ سال ہی جامعہ پنجاب میں اس حوالے سے طالبات کی جانب سے ایک پوسٹر (جامعہ کے شیطان ) بھی جامعہ پنجاب میں لگایا تھا۔ پروفیسر افتخار کی حرکتوں کے باعث ان کی طالبات اور ساتھی اساتذہ میں بے چینی پائی جاتی تھی لیکن ان کے اثر رسوخ کے باعث سب لوگ بے بس تھے۔ گذشتہ سال انہوں نے ایم فل سیکنڈ سیمسٹر کی ایک طالبہ پر اپنی نظر عنایت کی اور کئی بار اس طالبہ کو دعوت گناہ دی لیکن اس نے ان کی ہر پیشکش کو ٹھکرادیا،موصوف نے نمبر بڑھانے اور پاس کرنے کی بھی آفر کی لیکن اس طالبہ نے ان کی پیش قدمی کو روک دیا اور ان کو صاف منع کردیا کہ وہ ایسی کوئی امید نہ رکھیں۔ پھر موصوف نے ایک دن تنہائی میں اس طالبہ کو اپنے دفتر میں بلایا اور ہاتھ پکڑ دفتر سے ملحقہ بیڈروم میں لے گئے وہاں انہوں نے طالبہ کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی لیکن طالبہ نے ان کی پیش قدمی کو روک دیا اور اس واقعے کے بارے میں اپنے شوہر کو بتادیا۔ ان کے شوہر نے یونیورسٹی انتظامیہ کو شکایت پہنچائی اور یہ معاملہ کھل گیا جب یہ معاملہ سب کے سامنے آیا تو طلبہ و طالبات میں بے چینی لی لہر دوڑ گئی اور جامعہ میں ان کے خلاف غم و غصہ پھیل گیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس حوالے سے شیخ جامعہ ملاقات کی اور ان کے سامنے پروفیسر موصوف کا ریکارڈ رکھ کر ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمہ داران یہاں یونیورسٹی انتطامیہ سے مذاکرات مین مصروف تھے کہ اس دوران مشتعل طلبہ نے جن میں جمعیت کے کچھ کارکنان بھی شامل تھے پروفیسر موصوف کے کمرے کا گھیراؤ کرلیا اور مشتعل طلبہ نے ان کی پٹائی لگا دی۔ اگرچہ ایک استاد کا درجہ بہت ہی بلند ہوتا ہے اور استاد کو معنوی باپ کا درجہ حاصل ہے لیکن پروفیسر افتخار بلوچ نے اپنی حرکات کے باعث ایک استاد کا امیج مجروح کیا اس لئے طلبہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے۔
اس واقعے کو لیکر میڈیا نے اسلامی جمعیت طلبہ اور مذہبی جماعتوں کے خلاف ایک مہم چلا دی جس میں سب نے دل کھول کر اسلامی جمیعت طلبہ اپنے دل کی بھڑاس نکالی،میڈیا نے اصل بات سرے سے گول کردی اور سارا معاملہ اسلامی جمعیت طلبہ پر ڈال دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس واقعے کی انکوائری کی جاتی کہ طالبہ نے اگر حملہ کیا تو کیوں کیا؟ پروفیسر افتخار کے خلاف کیا یہ پہلی شکایت تھی یا اس سے پہلے بھی ان کے خلاف درخواستیں موصول ہوئی تھیں؟ غیر جانبدارانہ انکوائری ہوتی تو معاملہ اس وقت سامنے آجاتا لیکن سیکولر میڈیا اور پیشہ ور صحافیوں نے اس کے بجائے اسلامی جمیعت طلبہ کے خلاف یکطرفہ مہم چلائے رکھی ۔
اسی دوران تحریک انصاف کے سربراہ محترم عمران خان صاحب نے سوچا کہ سیاست کرنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے اور انہوں نے فوراً جاکر پروفیسر افتخار بلوچ صاحب کی عیادت کی اور وہاں جاکر انہوں گرجتے ہوئے جمعیت کے خلاف بیانات داغے اور جامعہ پنجاب کی انتطامیہ سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ وہ چند سال پیشتر جامعہ پنجاب میں اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کو بھولے نہیں تھے۔
انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہاں اپنے دل کا غبار نکالا،لیکن قارئین کرام ستم ظریفی تو دیکھئے کہ جس وقت وہ پروفیسر افتخار صاحب سے ملاقات کررہے تھے اس وقت ان کے ساتھ انصاف اسٹوڈینٹس کا کارکن بھی موجود تھا جو کہ عمران خان کی طرف سے پروفیسر صاحب کو گلدستہ پیش کررہا تھا۔ یہ نوجوان وہی تھا جس کو اسلامی جمعیت طلبہ نے عمران خان کے ساتھ بد تمیزی کرنے کی پاداش میں جمعیت سے نکال دیا تھا (ہر چند کہ جمعیت کہتی رہی کہ عمران خان پر حملہ نہ تو جمعیت کی پالیسی ہے اور نہ ہی جمعیت نے اس کی منصوبہ بندی کی بلکہ یہ کچھ لوگوں کا ذاتی فعل تھا لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی )
اور یہ نوجوان جمعیت سے نکلنے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگیا۔ نہ صرف یہ کہ شامل ہوگیا بلکہ تحریک انصاف نے بھی اس کو بڑھ کر خوش آمدید کہا اور یہ نہ سوچا کہ یہی فرد ہمارے قائد پر حملے میں ملوث ہے۔ اس سے یہ بات صریح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ عمران خان پر حملہ جمیعت کے خلاف ایک سازش تھی وگر نہ اتنی جلد اس فرد کو تحریک انصاف میں شامل نہ کیا جاتا۔
بہرحال خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نومبر 2010میں پروفیسر افتخار کے خلاف ساتھی پروفیسر کو جنسی طور ہر حراساں کرنے کے جرم میں ایف آئی آر کاٹی گئی۔ اس کے بعد ایک بار پھر ان کا نام میڈیا کی زینت بنا اور ایکسپریس نیوز کے ایک ٹاک شو میں اس معاملہ پر بات کی گئی تو نہ صرف یہ مذکورہ ساتھی پروفیسر بلکہ متاثرہ طالبہ نے اس پروگرام میں ایک بار پھر یہی کہا کہ پروفیسر افتخار نے ان کو بھی جنسی طور پر حراساں کرنے کی کوشش کی اور آفس سے ملحقہ بیڈروم میں لیکجاکر دست درازی کی کوشش کی۔
ایف آئی آر کٹنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات جاری رہیں اور اس دوران انکشاف ہوا کہ افتخار صاحب کی بیوی بھی ان کی حرکات سے نالاں تھی۔اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جو معاملہ اپریل2010میں اٹھا تھا وہ اپریل 2011میں اپنے انجام کو پہنچا اور جامعہ پنجاب کی انتظامیہ نے طالبات اور ساتھی پروفیسرز کو جنسی طور پر حراساں کرنے کے الزام میں پروفیسر افتخار بلوچ کو ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو جو لوگ اس وقت بڑھ چڑھ کر اسلامی جعیت طلبہ کو مورود الزام ٹھہرا رہے تھے۔ جو میڈیا پر مسلسل کئی دنوں تک جمعیت کے خلاف مہم چلاتے رہے کیا وہ اس موقع پر بھی کوئی پروگرام کریں گے؟
فیس بک تبصرے