27مارچ روزنامہ جنگ میں نظریہء پاکستان کے از سر نو تعین کی ضرورتکے عنوان کے تحت معروف صحافی ایاز میر رقمطراز ہیں کہ ً
پاکستان کو در پیش فوری چیلنج افغانستان یا کشمیر یا امریکی عزاءم کا پر وردہ کوئی اور مسئلہ نہیں ہے
اگرچہ اپنی اپنی جگہ پر یہ بھی مسائل ھیں مگر ھم نے جو کام سب سے
پہلے ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہے اور جو مسئلہ ھماری حماقتوں کے باعث پچھلے ساٹھ سالوں سے حل طلب ہے وہ ہمارے نظریات کا ازسرنو تعین ہےآگے چل کر وہ تحریر فرماتے ہیں کہ پاکستان ایک مختلف ملک بن سکتا تھا اگر ہم برداشت اور رواداری پر مبنی ترقی پسند انہ سوچ اپنا لیتے
انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ فرد ہو یا قوم نظریہ اسکے جسم میں روح کی حیثیت رکھتا ہے
اسی حقیقت کو مردِدانا اقبال اسرار و رموز میں یوں بیان کرتے ہیں مرگِ قوم از ترکِ حیات (قوم کی موت مقصدِحیات ترک کرنے
سے واقع ہو جاتی ہے )یہ الگ بات ہے کہ یہ نظریہ درست ہے یا غلط اور شر پر مبنی ہے یا خیر پر مبنی –لیکن دامنِ تہذیب پر انہی قوموں کے نام زندہ ہیں جنکا کوئی نظریہ اور مقصدِحیات تھا-اگر نظریہ خیر پر مبنی تھا تو دنیا نے فساد کا سامنا کیا
کیا پاکستان کو اپنے قیام کے 6عشرے گزارنے کے بعد اس نظریہ کی از سر نو تعین کی ضرورت ہے یا یہ ایک مخصوص لابی کی شر انگیز مہم کا حصہ ہے
—
جو در حقیقت ہمیں ترکِ مقصدِ حیات کے تباہ کن راستے کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش ہے–کیونکہ دو قومی نظریہ ہندوستانی مسلمانوں نے ایجاد نہیں کیا بلکہ قرآن کی اساس ہی دو قومی نظریہ پر قائم ہے-سورہ فاتحہ جو قرآن کا افتتاحیہ ہے ابتدا میں ہی بتا دیتی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے نظریات دو ہی رہے ہیں اسی بنیاد پر دو ہی قومیں اپنا وجو د رکھتی ہیں–دونوں قوموں اور قافلوں کی منزلیں جدا جدا ہیں –ایک حق کا قافلہ ہے اور دوسرا طاغوت کا لشکر–ہر قوم و فرد کو کلی آزادی ہے کہ وہ جس قافلے میں شامل ہو ،جس تصور تہذیب کے ساتھ چاہے زندگی گزارے—-!مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوؤں کی تاریخ
معلوم ہوتا ہے کہ ھندومت کے ماننے والوں کو جب جب اقتدار ملا انہوں نے دوسرے مذاہب کو نیست و نابود کیا–جبکہ مسلمانوں کی 900 سالا حکمرانی کا ریکارڈ پوری دنیا کے سامنے ہے کہ سیا سی غلبہ کے باوجود دوسرے مذاہب کی نہ صرف شناخت ختم کرنے کی کوشش نہ کی بلکہ ان کو پورے پورے حقوق عطا کیے
علامہ اقبال کے خطبہ الہٰٰٰ آباد سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ 1930 تا 1940 تک مسلمان دانشور گہرے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ محض برطانوی سامراج سے آزادی اصل مقصد نہیں ہے بلکہ یہ آزادی اسلام اور مسلمانوں کی سر بلندی سے مشروط ہونا چاہیئے
قائدِاعظم کی سوانح حیات پڑھنے والا کون نہیں جانتا کہ قائدِاعظم نے اپنے درجنوں بیانات اور تقاریر میں اسلامی نظریہ، اسلامی تشخص،اسلامی تہذیب،اسلامی معاشرت اور اسلامی قومیت کا ذکر کیا ہے—جو ایاز میر صاحب کی ترقی پسندانہ سوچ کی کھلی نفی کرتے ہیں
25 جنوری 1948 کراچی بار میں میں خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظم فرماتے ہیں “میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے ہی پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائیگی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جیسے تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھاجنکو قائدِاعظم شر پسند عناصرکہا وہ قیامِ پاکستان کے 62 سال بعد بھی نظریہء پاکستان کو ابہام کا شکار بنا رہے ہیں –یہ نظریاتی چیلنج ہر دور میں سر اٹھا تا رہا ہے–آج اس منفی پرہپیگنڈے میں بھارت تا امریکہ ایک فوج ظفر موج شامل ہے–پاکستان میں سیکولر لابی قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی سر گرمِ عمل ہے–اور اس نظریاتی رشتے کو کمزور کرنے کے لیے گاہے بگاہے یونہی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں–
یہ معمولی سازش نہیں ہماری جڑوں پر ضربِ کاری ہےاور ہماری نظریاتی اسا پر چوکنا رہنا اس وقت ہماری سب سے اہم ضرورت ہے—
3 اپریل روزنامہ جنگ کے کالم میں یہی موصوف فرماتے ہیں”رحمان ملک فیصل مسجد میں سجدہ ریز ہوئے اور ٹیم کی کامیابی کی دعا کی یہ صرف ہماری کرکٹ ٹیم ہی نہیں جو دباؤ میں ھوش گم کر بیٹھتی ہے کسی بھی پاکستانی حکومت کو دباؤ میں لائیں اور دیکھیں کیا کیا حماقت بھرے شگوفے پھوٹتے ہیں ۔۔۔۔!”
گویا ان کے خیال میں وزیرِداخلہ رحمٰں ملک جو میچ فکسنگ کے بارے میں بیان دے کر در حقیقت دباؤ کا شکار تھے تو فیصل مسجد میں انکا سجدہ اور دعا حماقت بھرا شگوفہ تھی –آگے چل کر وہ اپنی آزادانہ سوچ کا کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ”ٹیم کو موہالی کے میدان میں اجتماعی نماز ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟ وہ کس کو متاثر کرنے کی کاشش کر رہے تھے؟؟؟؟؟؟؟اس طرح کا طرزِ عمل ہماری شرمندگی کا باعث بنتا ہے–ہمیں ہر وقت اپنے عقیدے کی نمائش کی ضرورت نہیں
—-“موہالی میں ٹیم کا اجتماعی نماز ادا کرنا کسی مسلمان کے لیے شرمندگی کا باعث بھی ہو سکتا ہے اس حقیقت کا علم ایاز میر کے کالم سے ہوا—در حقیقت موصوف نشاۃ ثانیہ جدید کے علمبردار ہیں اور یہ طبقہ فکر اسلام کو ضابطہء حیات کی حیثیت سے مشکوک قرار دیتا ہے
کون نہیں جانتا کہ نشاۃِ ثانیہ کا پس منظر یورپ کے معاشرےسے مذہب کا خاتمہ کر کے انہیں مکمل سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا تھا اور اسکا سپیشل منظر دیکھنا ہو تو ایاز صاحب کے یہ الفاظ ملاحظی فرمائیں جو اسی کالم میں موجود ہیں “ہم بات بات پر عقیدے کو بیچ میں نہ لائیں تو پاکستان کے بیت سے معاملات سدھر سکتے ہیں -ہم بنگلا دیش سے سبق کیوں نہیں سیکھتے وہ اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ عوامی جمہوریہ ہے مگر نام کی تبدیلی سے عقیدے پر کیا فرق پڑا ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
بلاشبہ
برصغیر کی تاریخ میں ملا کا کردار دو مواقع تک محدود تھا نکاح اور جنازہ۔۔۔۔۔اسلام کے قلعے کا تصور اب ہمارے جسم و جان کی گہرائیوں میں رچ بس گیا ہے ہم اس سے الگ کوئی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے یہ (موہالی کی ) شکست شاید سرد پانی کا ایک چھینٹا ہے کہ ہم خواب سے جاگیں اور حقائق کو سمجھنا سیکھیں۔۔۔ایک سطحی ذہن رکھنے والا فرد بھی سوچ سکتا ہے کہ کسی کھیل کی شکست اور فتح کا ہمارے نظریہ اور تصور حیات سے بصد کیا رشتہ ۔۔۔۔ موہالی کی شکست اسلامی قلعے کے تصور کو کیسے شکست میں بدل سکتی ہے ۔۔۔ اس کا ادراک ایاز میر جیسے دانشور ہی کر سکتے ہیں –17 کڑوڑ پاکستانیوں نے
شکست کے صدمے کو محسوس کرتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی نہ سوچا کہ اگر ہم اسلام کا قلعہ ہوتے تو کیوں شکست سے دو چار ہوتے۔۔۔ یا یہ شکست ہمیں سیکولر پاکستان کا خاموش پیغام دے کر گئی ہے۔۔۔۔قرآن ابلیس کا تعارف ہی یہ کراتا ہے کہ وہ وسوسہ ڈالتا ہے ۔۔ لوگوں کی راسخ رائے کو آھستہ آھستہ لاشعوری طور پر تبدیل کر دیتا ہے –اور سیکولر فکر کے حوالے سے ان کے خیالات میں نرمی پیدا کرتا ہے–نہ صرف اخبارات بلکہ ٹی وی چینلز پر بھی اسطرح کے پروگرام تسلسل سے پیش کیےجارہے ہیں ۔۔۔ اجتہاد کے دروازے ہر کس و ناکس پر کھولے جا رہے ہیں
سیموئیل پی ہن ننگتن نے نے مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ اسلام ہی کو قرار دیا تھا—اسی خطرہ سے نمٹنے کے لیے مسلم دنیا میں عقلیت کی تحریک کو بپا کیا جا رہا ہے –ایسے دانشوروں کے ذریعے سیکولرازم کے را ستے ہموار کیے جا رہے ہیں –مذہبی عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا اور پھر انہیں مشکوک ٹھرا کر انھیں متروک قرار دینا دراصل نشاۃ ثانیہ میں عیسائیت کا طرہ امتیاز ہے
آج اسی فکر کا حامل طبقہ خود مسلمان معاشروں میں سرگرم عمل ہے کہ سیاسیت /اخلاقیات/ معاشرت کو مذہب سے الگ کر دیا جائے — اصطلاحوں اور اقدار کو کرنا اور اسطرح ایک تبدیل شدہ معاشرہ بپا کرنا جو مذھب کے خلاف سینہ سپر ھو مذہبی اقدار تو سائنس کی حدود و قیود کو بھی پابندی سے جکڑ تی ہیں—مگر یورپ میں سائنسی ارتقا ہوا ہی اس وقت جب یورپ نے مذہب کو خیر باد کہہ دیا تھا — یہ سائنس کی لا دینیت نہیں تو اور کیا ہے کہ تاریخ نے ھیروشیما اور ناگا ساکی کے زخم سہے —اس کے بر عکس مسلمانوں کے عروج کے ہزاروں سالہ دور میں سائنس کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کیا گیا
ضرورت اس امر کی ہے جدیدیت کی اس تحریک کے پسِ پردہ افکار کو سامنے لایا جائے — ان تحریکوں کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ؟؟؟؟؟؟اسکا شعور عام کیا جائے —پاکستان آج مسائل کی جس بھٹی میں سلگ رہا ہے اسکا واحد حل ہی اسلامی نظریہ حیات کے لیے ہماری مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے پاکستان کی بقا ہی یس کے نظریہ میں مضمر ہے —ہمیں ضرورت نظریہ پاکستان کے از سر نو تعین کی نہیں بلکہ اس نظریہ کی بنیاد پر اپنے سماجی۔تہذیبی،معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر ہے– نظریہ پاکستان ہی نشانِ منزل ہے–اس پر نظریں جمائے بغیر کسی منزی کا حصول نہ کر ممکن تھا نہ آج ممکن ہے
—
فیس بک تبصرے