داعیانہ کردار کے تقاضے

سماج انسانی ضرورت ہے ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اسکے تعلقات نہ صرف لوگوں سے اچھے ہوں بلکہ انکا دائرہ بھی وسیع ہو بدمزگی اور تعلقات کی خرابی کسی کی فطری خواہش نہیں ہوتی اور پھر جس نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ لوگوں کے موجودہ معیارات، ذوق اور دلچسپیوں کو بدلے گا اسکی زندگی میں صبغت اللہ کا رنگ بھرے گا اسکی تو یہ انتہائی ضرورت بن جاتی ہے کہ اس کے تعلقات کا دائرہ دوسروں سے بہت زیادہ وسیع ہو کیونکہ اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کی طرف بلانا کوئی ایسا کام نہیں جو قوت کے ذریعے ہو سکتا ہو نہ ہمیں اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال ملتی ہے کہ ہی کام قوت سے کیا گیا ہو اور کبھی قوت سے کیا گیا تو اسکے اثرات بہت منفی برآمد ہوئے۔ کون نہیں جانتا کہ قوت سے سر تو جھکائے جا سکتے ہیں دل نہیں فتح کیے جا سکتے اور فتح مکہ کا دن مکہ کی سرزمین کو فتح کرنے کا نہیں بلکہ اھل مکہ کے قلوب کو فتح کرنے کا دن تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جانیں اور پریکٹس کریں کہ تعلقات کے ان دائروں کو بڑھانے اور انھیں معیاری بنانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

اس کے لیے ہمیں یہ بنیادی بات جاننا ہوگی کہ اپنے بارے میں کم و بیش ہر شخص بہت خوش گمان ہے اور اپنی سرگرمیوں کو خواہ وہ جس نوعیت کی بھی ہوں پسندیدہ خیال کرتا ہے۔ جنہیں ہم عادی مجرم کہتے ہیں ان سے کبھی ملیں تو ان کے پاس اپنے اس کردار کے لیے درجنوں تاویلیں ہوں گی اور اگلی بات یہ کہ کوئی شخص چاھے جو کچھ بھی کر رھا ہو (چاھے وہ انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو یا نقصاندہ، یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کو روکا اور ٹوکا جائے کیونکہ خود پسندی انسان کی گھٹی میں پڑی ہے۔

اب اس حقیقت کے ادراک کے بعد ہمارا کام کسی درجہ میں آسان ہو جاتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مخاطب نہ ہماری تنقید سننے کا روادار ہے اصلاحِ احوال کی کوئی خواہش رکھتا ہے کیونکہ وہ خود کو غلط یا کم از کم اتنا غلط نہیں سمجھتا جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں امر با لمعروف و نہی عن المنکر کبھی کبھی تعلقات پر قینچی چلانے کے مترادف ثابت ہوتا ہے۔ اور اسی موقع پر شیطان اپنا یہ جال پھیلاتا ہے کہ “کیا فائدہ دعوت و تبلیغ کا جب لوگ اس کی خواہش ہی نہیں رکھتے اور کوئی تنہا تمھاری کوششوں سے معاشرہ بھی سدھر سکتا ہے۔ خواہ مخواہ لوگوں سے تعلقات خراب کرنے کا فائدہ بھی کیا؟

شیطان کے اس وسوسے سے بچتے ہوئے ہمیں سماج کے مجموعی رویے اور لوگوں کے حالات کا معروضی نہیں حقیقیی جائزہ کرنا ہوگا۔ دنیا میں بھلا کوئی ایسا انسان ہے جس میں صرف برائیاں ہی برائیاں ہوں ہر انسان میں خیر و شر کی قوتیں بیک وقت موجود ہوتی ہیں بحیچیت داعی ہمیں لوگوں میں اپنے مخاطب میں خیر کے پہلو کو تلاش کرنا ہوگا۔ اپنے مخاطب کوئی نہ کوئی خوبی آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں اگر ایک بار یہ کام سلیقے سے کر لیا تو ہم ضرور اسے اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ انسان پانی کی پیاس کسی وقت میں کسی خاص حد تک محسوس کرتا ہے اور پانی ملنے پر وہ رفع بھی ہو جاتی ہے لیکن حوصلہ افزائی کی پیاس ہمیشہ اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہماری معمولی سی حوصلہ افزائی ہمیں نکتہ چینی کے مقام سے اوپر اٹھا کر “ہمدردوں” کے مقام میں داخل کر دے گی اور ہمدردی پا کر ہر شخص آسودگی محسوس کرتا ہے اور اس کے بعد آکر ہم اسکی معمولی اور ہلکی کمزوری کی طرف توجہ دلائیں تو نہ صرف وہ مشورہ قبول کریگا بلکہ نیکی کی طرف پیش قدمی کی ایک نئی طاوت خود میں محسوس کرےگا اور اگر ہم عجلت کا مظاہرہ نہ کریں اور اسکی اصلاحِ احوال پر بدستور متوجہ رہیں تو وہ ضرور صراطِ مستقیم کی طرف پیش قدمی کریگا۔

مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ دعوت دین کا کام اپنے قریب ترین سرکل میں سب سے زیادہ ناکام پائے گئے ہیں حالانکہ قرآن کا تو یہ تقاضہ ہے کہ قو انفسکم و اھلیکم کہ اپنی جان کے بعد اپنے اقرباء پر متوجہ ہوں اور انھیں دعوت دین پہنچاؤ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بات بات پر روکنے ٹوکنے کو ہم داعیانہ کردار سمجھنے لگتے ہیں ہمیں اس کمزوری پر بہر حال قابو پانا ہوگا اگر دوسروں کی کوتاہیاں محسوس کرنے کے بعد ہم خود کو اس مقام پر رکھ کر ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں (اگرچہ یہ بہت ہمت اور حوصلہ کا کام ہے تو ہم محسوس کریں گے کہ ان خامیوں کے لیے کائی نہ کوئی تاویل آرام سے خود ہمارا نفس بھی تلاش کر لیتا۔ ہم یہ بات اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہمارا مخاطب ہم جیسا انسان ہی ہے۔ وہ اپنی آبائی روایتوں اور اقدار کا مقلد بھی ہے۔ ہمارے کوتوالی کا انداز ہمارے اور اس کے راستے جدا کر سکتا ہے۔ ہمیں حتٰی الامکان ایسی گفتگو سے اجتناب کر نا چاہیئے جس سے کسی فرد کی عقیدت مجروح ہو اور اس کے غرور و تکبر کو ٹھیس پہنچے کیانکہ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھے بغیر انکے اندر ہٹ دھرمی کے جذبات پیدا کرنا ہمارے لئے کبھی کامیابی کا دروازہ نہیں کھول سکتا۔

جو داعی کسی انقلاب کا خواہشمند ہو اسکے لیئے سب سے پہلی مشق یہ ضروری ہے کہ وہ اچھا “سامع” ہوہم میں سے بہت اچھے مقرر تو ہوتے ہیں اچھے سامع کے معیار پر پورا نہیں اترتے حالانکہ اچھا سامع ہونا ہماری کامیابی کے لیئے انتہائی ناگزیر ہے۔ ہمیں موقع دینا چاہیئے کہ مخاطب دل کھول کر اپنی بات کہہ سکے۔ سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی فرد اپنی بات کسی دوسرے سے کرتے ہوئے شرماتا تھا لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا ادراک رکھنے کے باوجود لوگ اپنے ہر طرح کے مسائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے تھے۔ اور پوری سیرت کا مطالعہ کر لیجیئے کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب کی بات پر جھنجھلا گئے ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت بات کر کے اسکے وقار کو مجروح کیا ہو
کیونکہ دنیا کا ہر فرد (چاہے ہم اسکو جس کٹیگری میں بھی رکھیں ) بہر حال اپنی ایک شخصیت رکھتا ہے۔ ہماری رائے اور نقطہ نظر دوسرے کی رائے اور نقطہ نظر بن جائے یہ کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں ہے کیونکہ ہر شخص اپنی رائے کے لئے بہرحال دلیل رکھتا ہے اور ہم بغیر دلیل کے محض‌جذبات سے کسی کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ کسی کی تائید کرنا کتنا آسان کام ہے اور کسی پر یہ ثابت کرنا کہ اسکی سوچ ہی کجی کا شکار ہے۔ اور یہی غلط سوچ غلط ظرز عمل کا باعث بنی ہے یہ کس قدر مشکل کام ہے کیونکہ خود کو کم علم اور بے وقوف سمجھنے پر کوئی بھی آمادہ نہیں ہوگا اور اپنے عقائد کو کوئی بھی کمزور نہیں سمجھتا۔

اگرچہ کہ خیالات اور عقائد بہرحال تبدیلی کے عمل سے دوچار رھتے ہیں لیکن تبدیلی کا یہ عمل اسکا اپنا رضاکارانہ ہوتا ہے۔ باہر سے جبر مسلط کر کے کسی کے خیالات اور عقائد کبھی تبدیل نہیں کرائے جا سکتے۔ ہمیں یہ مشق کرنا ہوگی کہ ہم لوگوں کو انکے خیالات پر نظر ثانی کے لیئے آمادہ کر سکیں مثلاً یہ کہنا کہ “آپ کی رائے بلاشبہ درست ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی غور کر لیجیئے گا” اگر ہم اپنے مخاطب کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہم اسکے نظریاتی مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کے ہمدردر اور خیر خواہ ہیں اور ہم بھی ہر وقت غورو فکر کے لیئے تیار ہیں ہمارا فاصلہ مخاطب سے کم کر دیتا ہے بسا اوقات ہمارے سوالات ہماری کمزوری ثابت ہوتے ہیں مثلاً اگر ہم اپنے مخاطب سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے قرآن ترجمہ سے پڑھا ہے؟ یا آج کے اخبار کا یہ آرٹیکل آپ کی نظر سے گز را ہے؟ تو ظاہر ہے کہ اپنی کم علمی کا اعتراف کسی کے لیئے بھی خوشی کا سبب نہیں ہوتا۔ ہمارے سوال کسی کے علمی مرتبے کا تعین کرنے کے لیئے نہیں بلکہ اس کی ذہنی آسودگی کے لیئے ہونے چاہیئں۔ یہ چیز ہمارے لیئے قرب کا باعث بن سکتی ہے مثلاً یہ کہنا کہ ” مجھے آپکی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ آپکی معلومات خاصی وسیع ہیں لھٰذا آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنی دلچسپی کے تناظر میں یہ شخص وسیع معلومات رکھتا ہے موعظہ حسنہ میں یہ چیز ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کہ ہم ان امور میں خصوصی دلچسپی ظاہر کریں جو مخاطب کی ذات سے قریبی تعلق رکھتی ہوں۔ اگر کوئی سر درد کا شکار ہے تو اسکے لیئے یہ موضوع قطعی اہمیت کا حامل نہیں ہے ہوگا کہ مصر اور تیونس کے انقلاب سے نظام بدلے ہیں یا چہرے۔۔۔۔۔ اسلئے ہمیں اس صورتحال میں اپنی بات جاری رکھنے کی بجائے مناسب وقت کا انتظار کر لینا چاہیئے۔

کیا یہ حقیقت ماننے میں کوئی عار ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی بات کی اہمیت اسی لئے کھو دیتے ہیں کہ وہ وقت اس بات کے لیئے مناسب نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم جس نئے فرد کے پاس اپنی دعوت لے کر جاتے ہیں وہ ہم سے اجنبیت اور دعوت سے گبھراہٹ محسوس کرتا ہے لھٰذا ہمیں گفتگو ایسے موضوعات پر کرنی چاہیئے جو مشترک موضوعات ہوں اور جن پر مخاطب کو “نہیں ” کہنے کا موقع نہ ملے مثلاً بڑھتی ہوئی مہنگائی ،معاشرے کی اخلاقی گراوٹ، میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل، اولاد کی طربیت وغیرہ، اگر ہم اپنے مخاطب کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ صاحب الرائے ہیں، انکی گفتگو اور دلیل میں وزن ہے اور وہ سوچ بچار رکھتے ہیں تو یہی فضا ہوگی جب ہم انکو اپنی بات قبول کرنے کے لیئے آمادہ کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی بات تجویز کی صورت میں رکھ کر مخاطب کو باور کرائیں کہ یہ اسکا اپنا خیال ہے اور اسکے غورو فکر کا نتیجہ ہے بہر حال اپنی اور دوسروں کی آخرت کی فکر کرنا نبی کریم کا اسوہ مبارک ہے۔ ناگزیر ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دائرے میں ہم میں سے ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply