یہ تقریباً پون صدی کی کہانی ہے جب مملکت پاکستان جس کاپوری اسلامی دنیا میں منفرد نام‘‘ اسلامی جمہوریا پاکستان‘‘ ہے آزاد ہوا۔اس کا آئین اسلامی ہے جو کہ دنیا میںکسی دوسری اسلامی مملکت کا نہیں(سوائے ایران کی)۔اس کی پارلیمنٹ اسلام کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی بلکہ دستور میں اگر کوئی چیز غیر اسلامی ہے تو اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ نظامِ حکومت اسلامی اصولوں کے مطابق چلے اور ایک اسلامی فلا حی ریاست مملکت مستحکم ہو۔ معروف میں یہ واحدمذہبی مملکت ہے جو اسلام اور اس نعرے ’’ پاکستان کامطلب کیا ‘‘لا الہ الا اللہ‘‘ کے نام پر بڑی جدوجہد اور بے انتہا قربانیوں کے بعد قائد اعظم ؒ نے اس وقت کی سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے جمہوری طریقے سے حاصل کی۔ جب پاکستان بن گیا تو ان حالات میں اس کو محفوظ اور مستحکم رکھنے کے لیے اس وقت کے حکمرانوں کوفکر ہوئی انہوں نے امریکہ سے اتحاد کی بنیاد رکھی جو یقینا ضرورت تھی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کو خط لکھا تھا کہ ہمیں ملٹری اور اقتصادی امداد چاہےی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی خواہش تھی کہ روسی کیمپ سے بھی تعلقات ہونے چاہیے مگر زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔دلچسب بات یہ ہے کہ لیاقت علی خان کی موت کے دوسرے دن یہ خط ہماری وزارت خارجہ نے امریکہ کے حوالے کیا جو انہوں نے تین ماہ قبل لکھا تھا۔ انہوں نے امریکہ سے اتحاد کی بنیاد رکھی جو اس وقت کی ضرورت تھی کیوں کہ بھارت نے دل سے پاکستان کو برداشت نہیں کیا اور ابتدا سے ہی اس کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں اس کے حصے کے اثاثے روک لیے ۔آذاد رائے سے ریاستوں کی شمولیت کے فارمولے کو پس پشت رکھ کرحیدر آباد، جونا گڑھ اور کشمیر پر فوج کشی کر کے اپنا قبضہ جما لیا۔ ہمیں قرآن سے ہدایت ملتی ہے کہ ’’یہود ی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو‘‘(البقرہ ۰۲۱)یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان ان جیسے نہ ہو جائیںیعنی ان کا کلچراورانکی تہذیب نہ اختیار کر لیں۔یہی بات امت مسلمہ کے لیے زہر قاتل ہی۔ہم نے مجبوراً اپنی بقاء کے لیے امریکہ سے دوستی کی اور امریکہ نے اپنی پرانی روش کے مطابق ہم سے دغا کیا ۔امریکہ سے دوستی کا مطلب اس وقت کی دوسری بین الاقوامی طاقت روس سے دشمنی تھی جو ہمارا قریبی پڑوسی بھی تھا۔اس دوستی کے بدلے ہم نے بہت نقصان اُٹھایا۔ ہم نے امریکہ سے دوستی نبھائی اور اپنی سرزمین سے امر یکی جاسوسی جہاز یو ٹوپشاور کے قریب بڈ پیر سے اڑان کی اجازت دی،روس نے یہ جاسوس جہاز گرا دیا اور ہمیں دھمکی دی کہ اس نے اس علاقے پر ریڈ نشان لگا دیا ہے ۔ اس پر عمل کرتے ہوئے اس نے ہندوستان کی پاکستان توڑنے کی سازش میں مدد کی۔۱۷۹۱ ہندوستان کی ایٹمی آبدوزوں کے ذریعے مدد کر کے اپنا بدلہ پاکستان سے لے لیا۔ہمارے سنٹو اور سیٹو کے اتحادی امریکہ کا ساتواںبحری بیڑا ہماری مدد کو نہ پہنچ سکا بلکہ اس وقت کے وزیر خارجہ کی کتاب کی تحریر کے الفاظ’’ کہ امریکہ نے بنگلہ دیش بنانے میں کردار اداکیا‘‘۔یہ ہے یہود و نصارا کی دوستی!اس سے قبل ۵۶۹۱ کی پاکستان ہندوستان جنگ میں اسلحہ کے فاضل پرزے روک کر عین جنگ کے موقعے پر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا کھونپایہ تو اللہ کی مدد تھی کہ چین اور دوسرے دوست ملکوں کی وجہ سے پاکستان نے ۵۶۹۱ کی جنگ میں ہندوستان پر برتری حاصل کی۔ایف ۶۱ ہوائی جہاز خریدنے کے لیے دی گئی نقد رقم کے باوجود ایف۶۱ وقت پر نہ دیے اور برسوں ٹامٹول کرتا رہااور سوابین کھانے کا تیل دیا۔اب جبکہ موجودہ جنگ میں ہمارا۰۵کھرب کا نقصان ہو چکا توکچھ ایف ۶۱ جہاز دےی۔ روس افغانستان جنگ میں پاکستان کی مدد سے روس کو شکست دلائی اور اپنا مطلب نکال کر ایک طرف ہو گیا اور ۰۵ لاکھ افغان مہاجرین کابھاری بوجھ اور اس سے متعلق دوسری خرابیاںاور روس سے پاکستان کی دشمنی ڈال کر ایک طرف ہو گیا۔پاکستان آج تک یہ بوجھ برداشت کر رہا ہی۔ایک بار پھر موجودہ امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کو اسٹو ن ایج میں پہچانے کی دھمکی دے کر زبردستی لاجسٹک راہداری حاصل کر کے ہمیں ایک پڑوسی مسلمان دوست ملک کے خلاف کر دیا .ہماری مغربی سرحد غیر محفوظ ہو گی ۔اپنے مفادات کی جنگ کو پاکستان میں لے آیا جو گوریلا جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں ہمارے ۹ نام ور جرنیل شہید ہو چکے ہیں دوسرے جوفوجی حضرات اس کے علاوہ ہیں ہمارے ملک کو ۰۵ کھرب ڈالر کا نقصان دے کر اپنے پاکستانی پٹھوں حکمرانوں کو طوطے کی رٹ سکھا دی کی یہ پاکستان کی جنگ ہے اور بے ضمیر حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی کہ پاکستان کو بھارت جس نے آج تک پاکستان کو قبول نہیں کیا اور جس سے تین جنگیں پاکستان اپنی بقا کے لیے لڑ چکا ہے کو کوئی خطرہ نہیں اور ہمارے حکمران کو جو امریکہ نے ڈکٹیٹ کر دیا وہی بات کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں۔ شرم کا مقام ہے اس قسم کا رویہ تو غلاموں کا بھی نہیں ہوتا؟نیٹو کے جہاز آئے دن ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہے ۔
ہیں۔ڈرون حملے ہمارے شہریوں کو بے گناہ قتل کر رہے ہیں۔ہمارے ملک میں خود کش حملے ہو رہے ہیں ہمارے بزرگوں کے مزارات جن کو صدیوں سے کسی نے نقصان نہیں پہنچایا آج مسمار کیے جا رہے ہیںاور ان پر خود کش حملے ہو رہے ہیں ہماری مسا جد پر خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ہمارے بازاروں پر خود کش حملے ہو رہے ہیں۔ہماری مہمان کرکٹ ٹیم پر بھی حملہ کیا گیا۔ یہ سارے کام امریکی بلیک واٹر کے کارندے جس کے بانی نے کہا تھا کہ میں نے یہ دہشت گرد تنظیم بنائی ہی اس لیے ہے کہ مجھے دنیا سے مسلمانوں کو ختم کرنا ہی۔ کچھ دن پہلے لاہورشہر میں سی آئی اے کا مقامی انچارچ اور جاسوس ریمنڈ ڈیوس ہمارے تین شہریوں کو قتل کر چکا ہے اور ایک خاتون خود کشی کر چکی ہے اس کا مقدمہ عدلیہ میں تھا۔ عدلیہ نے دیت کے قانون کے تحت اس کو رہا کر دیا ہے وہ امریکہ پہنچ چکا ہے حال میں ہی روسی خبر رساں اجنسی کی رپورٹ جو کہ بین القوامی میڈیا میں شایع ہو چکی ہے کہ ریمنڈ ڈیواس کے ذریعے امریکہ کا مشن اس بات پر کام کر رہا تھا کہ ریمنڈ ڈیواس کے ذریعے القاہدہ کو ایٹمی تھیار مہیا کئے جائیں اور اس سے امریکہ میں ۱۱۹ جیسا جعلی واقعہ کروایا جائے اور پھر اس بہانے پاکستان پر حملہ کر دیا جائے اور افغانستان میں موجود میرین اور پاکستان میں موجود بلیک واٹر کے تربیت یافتہ کمانڈوز سے نشان زدہ جگہوں پر حملہ کر ادیا جائے اور اس طرح اپنی پرانی اسکیم جس کو پاکستانی میڈیا وقتاً فوقتاً اخبارات میں بیان کرتا رہا ہے کو فائنل کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو یورپ منتقل کر دیا جائے یہ ہے ہمارے دوست امریکہ کے عزائم ! مظلومہ امت ،ہمارے ملک کی شہری خاتون ڈاکٹر عا فیہ صدیقی جس کو پہلے کراچی سے اغوا کیا گیا پھر افغانستان کی بلگرام جیل میں رکھا گیا اس کے بعد پھر اسے امریکہ منتقل کیا گیا ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اس کے بچوں سمیت پہلے عادی مجرموں کے ساتھ قید کیا رکھا جس سے وہ دماغی توازن کھو بیٹھی پھر اس ناکردہ گناہو ں کے بدلے اور جس نے کوئی قتل نہیں کیا کو ۶۸ سال قید کی سزا دی جو دنیا کی تاریخ میں کسی عورت کو انتہاہی سخت سزاکا عدالتی فیصلہ ہے اور اب وہ امریکی قید میں بند ہی۔ امریکہ اپنے قانون کی تو پابندی کر رہا ہے مگر ۳ پاکستانیوں کے قاتل جس کا مقدمہ پاکستان کی عدلیہ میں زیر سماعت تھا کو نہ مانتے ہوئے اپنے قاتل کو سفارتی اسثسنا کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور پھر اسلامی دیت کے قانون کے تحت جن قوانین کو خودمانتا نہیں آزاد کروا کر امریکا لے گیا۔پاکستان کی بقا کے مسئلہ کشمیر جسے بانیِ پاکستان قائد اعظم ؒ نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ہمیشہ ویٹو پاور استعمال کر کے اقوام متحدہ میں پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ اس لیے کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہی۔ دوسری طرف اسلامی ملک انڈونیشیا کے جزیرہ جو کہ عیسائی آبادی پر مشتمل ہے عوام کی رائے معلوم کر کے علیحدہ عیسائی مملکت بنا دیا ۔اس طرح چند دن پہلے سوڈان اسلامی ملک کی عیسائی آبادی والے علاقے میں ریفرنڈم کروا کے ایک دوسری عیسائی ریاست بنا دی۔فلسطین کے مسئلے کے حل میں بھی امریکہ ویٹو پاور استعمال کرتا ہے اور مسلمانوں فلسطینیوں کے مقابلے میں یہودیوں کی مدد کر رہا ہی۔ کیا کشمیر میں لوگوں کی رائے کے مطابق اور فلسطین میں فلسطینیوں کی رائے کے مطابق فیصلہ نہ کرنے دینا بلکہ اس کے خلاف ویٹو پاور استعمال کر کے ان مظلوموں کے ساتھ بے انصافی نہیں کر رہا یہ دوہرہ میعار نہیں تو کیا ہی؟ پاکستان اور پوری اسلامی دنیا میں لوگ امریکہ کے خلاف ہیںآے دن کے سروے اس بات کا ثبوت ہیں۔ صرف امریکی پٹھو مسلمان حکمران اس کے ساتھ ہیں ۔پاکستان میں ۵۸ فیصد لوگ امریکہ کے خلاف ہیں ۔
ان حالات میں کیا ہمیں امریکہ سے دوستی رکھنی چاہےی؟یقیناً نہیں!ملک کے اندر جماعت اسلامی نے گو امریکہ گو مہم چلا رکھی ہے عوام کو امریکی ظلم اور د و ہرے میعار سے آگاہ کر رہی ہے ریلیوں، مظاہروں، جلسوں، کانفرسوں اور ہر جمہوری اور پرامن طریقوں سے عوام کو امریکہ کے عزائم سے آگاہ کر رہی ہے ۔ دوسری سیاسی،مذہبی اور سماجی جماعتوں کو بھی اپنے اپنے طور پر کوششیں کرنی چاہیے تاکہ امریکی پاکستان میں اپنے عزائم میں ناکام ہوں امریکہ ہمارا پیچھا چھوڑے اور ہم آزاد قوم کے طور پر اپنے معاملات خود چلائیںآمین
فیس بک تبصرے