جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت
جماعت اسلامی کیا چاہتی ہی:۔جماعت اسلامی ۱۴۹۱ء میں وجود میں آئی۔ اوّل روز ہی سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنا تھا جو آ ج تک اُسی مقصد کو لیکر درجہ برجہ آگے بڑھ رہی ہی۔اسلامی حکومت ، حکومت الہیا یا نظام ِ مصطفے ؐ ایک ہی مقصد ہی۔ یہ یاد رہے کہ دنیا میں مذہبی حکومت سواے اسلامی جموریہ پاکستان اور اسرائیل کے علاوہ کہیں بھی نہیں ہی۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اسی طرح یہودیت کے نام پر اسرائیل حکومت قائم ہوئی۔ باقی ساری دنیا میں سیکولر حکومیتں قائم ہیں۔
اسلامی حکومت نہ تو سیکولر لوگ قائم کر سکتے ہیں نہ وہ کریں گی۔کیونکہ ان کے سامنے ہے ہی سیکولر نظام، جس میں مروجہ دستور کے مطابق مذہب کا دخل نہیں ہوتا۔ آپ اپنے مذہب پر قائم رہیں اُس پر عمل کریں، مساجد بنا ئیں ،نمازیں پڑھیں ،روزے رکھیں،حج پر جائیں اور تمام مذہبی رسوم ادا کریں لیکن وقت کی حکومت میں مداخلت نہ کریں کیوں کہ نظام سیکولر ہی۔ اس کی پارلیمنٹ جو چاہے گی قانون بناے گی،چاے وہ اسلام کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ،اُس کی عدلیہ مغربی قانون کے مطابق فیصلے کرے گی۔ اُس کی انتظامیہ غیروں کے طور طریقے پر عمل کرے گی، اگر لوگوں کے نمائندوں کی اکثریت خلافِ اسلام قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹ دیتی ہے تو صحیح ہی۔
اس کے برعکس جماعت اسلامی حکومت الہیا اسلامی نظام ِحکومت قائم کرنا چاہتی ہے یعنی عرفِ عام میں مذہبی حکومت چاے ساری دنیا سیکولر کی سمت میں چل رہی ہو۔ بہت بڑا چلینج ’’پانی کے دھا رے کا رخ موڑنا ‘‘ ہی۔ اس لیے جو لوگ اسلامی حکومت قائم کرنے کے دا عی ہیں ا ن کے کچھ اوصاف ہونے چاہیں۔
جماعت اسلامی کا ممبر، ہمدرد،متفق اور کارکن بندہ اس وقت ہی بن سکتا ہے جب وہ دل میں اسلام کی تڑپ رکھتا ہو دِل میں درد رکھتا ہو ،اُس کی خواہش رکھتا ہو کہ ملک پاکستان میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہونا چاییے ۔
اس لیے اول روز ہی سے جماعت اسلامی نے افراد کی تربیت کو اولیت دی ہے ۔ اس کے رکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرائض کی ادائیگی کرتا ہو کبائر سے اجتناب کرتا ہو،نظم کی پابندی کرتا ہو،ذریعہ معاش حلال ہو ،اپنی سوسائٹی میں مرجہِ خلائق ہو۔ معروف میں لوگ اسے اچھا سمجھتے ہوں،معا ملات میںلوگ اُس کی طرف رجوع کرتے ہوں اور لوگوں کے کام آتا ہو۔ یہ سارے اوصاف ایک فرد کے اندر ہو ں تب جا کر وہ جماعت اسلامی کا رکن بن سکتا ہی۔ اس کے علاوہ اسلام کا اتنا علم ضرور رکھتا ہو کہ حرام حلال میں تمیز کر سکے ۔کس چیز سے اسلام منع کرتا ہے ،کس چیز کی اجازت دیتا ہی۔ یعنی اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات اُسے ہونی چاہےی۔یہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بندہ سوسائٹی کے اندر اسلام کی بات کرتا ہے ،تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ اسلام کیوں ہوناچاہیے یہ’’ کیوں کا جواب‘‘ اگرتحریک اسلامی کے کارکن کے پاس نہیں تو وہ اپنے نصب ا لعین میں کمزور ہے الہذا، ایک فرد جو اپنے آپ کو جماعت ا سلامی کا کارکن سمجھتا ہے تو ضروری ہے اُسے اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات ہونی چاہیے ۔
اِن بنیادی معلو مات کے لیے جماعت اسلامی کے تربیتی پروگرام ہوتے ہیں جن میں کارکنان شریک ہو کر بنیادی معلو مات حاصل کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث شریف کا مطالعہ کا شوق بھی کارکنان کو بنیادی معلامات فراہم کرتا ہی۔ مولانا مودودی ؒ کا تحریکی لڑیچر اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ لڑیچر قرآن وحدیث سیرت اور صحابہ ؓ کی سیرت پر مبنی ہے اس سے کارکنان کی ذہنی آبیاری ہوتی ہی۔ ایک کارکن ہر ہفتے درس قرآ ن وحدیث کی محفل میں شریک ہوتاہے تربیتی پروگراموں میں شرکت کرتا ہے مربی حضرات کی تقاریر سنتا ہے نیک لوگوں کی محفل میں ہمیشہ رہتا ہے اسلامی رسائل وجرائد کا مطالعہ کرتا ہے جماعت اسلامی کے متعلق اخبار ،رسائل۔ روزنامہ ،ہفتہ وار ،پندرہ روزہ ،اور ماہوار شائع ہوتے ہیں اس کے علاوہ کارکنان کی آپس کی گفتگوئیں جس میں اسلام کے عملی نفاذ کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، میں شامل رہتا ہے ۔ جماعت اسلامی، اسلام پر لیکچرز کا اہتمام کراتی رہتی ہے خصوصاّ اسلامی ممالک کے دانشوروں اور مقامی دانشوروںکی ورکشاپز کے پروگرام کا انتظام کراتی ہے جو کہ عوام اور کارکنان کے لیے یکساں فواہد رکھتے ہیں۔ ہما رے نزدیک ان تمام کاموں میں ایک نقشہ نظر آتا ہے ۔یہ سارا کام(سید مودودی بین الاقوامی اسلامک اوپن یونیورسٹی ) کرتی ہے جس کا ہیڈ کواٹر لاہور میں ہے جس کے کیمپس سارے پاکستان میں اور ساری دنیا میں ہیں جو اپنے طالبعلموںکو یعنی جماعت اسلامی کے کارکنان کو اور عوام کو اسلام کی بنیادی معلومات فراہم کرتی ہے کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھوںاسلامی نظام قائم ہونا ہے اُن کو اسلام کی بنیادی معلومات کا علم ہونا چاہیے (سید مودودی بین ا لاقوامی اسلامک اوپن یونیورسٹی) کے طالب علم مندرجہ بالا کورسوں سےگزر کر ایک اسلام کے چلتے پھرتے نمونے بن جاتے ہیں اِن میں کوئی طالب علم ۰۶ سال،کوئی ۰۴ سال، کوئی ۰۲ سال، کوئی ۰۱ سال اور کوئی ایک سال ،یعنی جیسے ہی جماعت اسلامی میں بندہ داخل ہوتا ہے اس کا طالب علم بن جاتا ہے اس طرح لاکھوں طالب علم اس یونیورسٹی سے علم حاصل کر چکے ہیں اور باقی حاصل کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا ایک وقت انشااللہ آے گا کہ پورے پاکستان میں پھیلے ہوے یہ لاکھوں کارکن اس ملک خدا داد میں اسلامی نظام قائم کریں جموری طریقے سے سیاسی مخالفوں کو شکت دے کر اور ملک پر آسمان سے بھی اور زمین سے بھی رزق نازل ہو گا اور یہ ملک خوش حا ل ہو گا، عزت وقار ہو گا، امن وامان ہو گا،احترا م آدمیت ہوگا،عدل وانصاف ہو گا، برابری ہو گی اور اس ملک کے باشندے اللہ کے شکر گزار ہونگے اورخوش حالی ہو گی۔
جماعت اسلامی کا شورائی نظام:۔جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ روز اول سے کام کر رہی ہی۔ارکان کی آزاد راے سے پورے پاکستان سے اس کا چناو خفیہ بلیٹ کے ذریعے ارکان کی تعداد کے تناسب سے ہوتا ہی۔ اس کے مقررہ مدت میں باقاعدگی سے اجلاس ہوتے رہتے ہیں۔ مرکزی مجلس شوریٰ امیر جماعت اسلامی پاکستان کی رہنمائی کرتی رہتی ہی۔مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان امیر جماعت کے سامنے حلف اُٹھاتے ہیں کہ وہ اللہ اور رسول ؐ اور جماعت اسلامی کے وفادار رہیں گی۔ اپنے ضمیر کے مطابق مجلس شوریٰ میں اپنی بات رکھیں گی۔جماعت اسلامی میں خرابی ہونے کی صورت میں اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے و غیرہ۔ہر تین سال بعد باقاعدگی سے مجلس شوریٰ کا انتخاب ہوتا رہتا ہے ۔اس کے اجلاس میں عام ارکان جماعت سامع کی حثیت سے شریک ہو سکتے ہیں ۔مجلس شوریٰ اپنی دو تہائی اکثریت سے امیر جماعت کے خلاف عدم اعتماد کی قراداد پاس کر سکتی ہی۔ یہ چیز دوسری سیاسی مذہبی جماعتوں میں ناپید ہے ۔ ایک دفعہ کسی جماعت کے سربراہ بن گے پھر ان کی زندگی تک اُنہیں کوئی ہٹا نہیں سکتا بلکہ اُن کے بعد اُن کی اولاد کو بھی کوئی مشاورت سے بے دخل نہیں کر سکتی ۔جبکہ یہ کمزوری جماعت میں ناپید ہی۔
جماعت کے نظام کو مجلس شوریٰ چلاتی ہے اس میں ردوبدل کر سکتی ہے ترمیم و اضافہ کر سکتی ہے مجلس شوریٰ کے عدم اعتماد کے بعد اگر امیر دوبارا منتخب ہو جاے تو یہ جماعت کی طرف سے مجلس شوریٰ پر عدم اعتماد ہو گا۔ امیر کے حلف اُٹھانے کے بعد ایسی شوریٰ معزول ہو جاے گی۔اور امیر نئی شوریٰ کے انتخاب کا انتظام کرے گا۔
iاگر کسی وقت مجلس شوریٰ کے اجلاس کے لیے مقرر نصاب ِ حاضری کی حد تک بھی ارکان ِ شوریٰ موجود نہ رہیں تو ملک میں تمام ضلعی جماعتوں کے امراء کی ایک مجلس شوریٰ کی حیثیت سے کام کرے گی۔امیر جماعت مجلس شوریٰ کے ارکان سے اپنے لے ایک مجلس عاملہ کا انتخاب کرے گا جس کی مخصوص تعداد ہو گی جو اسے روزانہ کی بنیاد پر مشورے دے گی اور اسے معروف میں شوریٰ کے اختیا رات حاصل ہوگے ۔قار ئین ایسا سیٹ شورائی نظام صرف جماعت اسلامی ہی میں موجود ہے دوسری سیاسی جماعتوں میں نہیں ہی۔دینی جماعتوںمیںشورائی نطام ہے مگر ساتھ ساتھ وہ مورثی جما عتیں ہیں جن میں مشاورت کی روح ناپید ہے ۔
جماعت اسلامی میں قیادت:۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے انسان اپنے اندر بے شمار خواہشات رکھتا ہے اِن انسانی خواہشات کو ختم نہیں کیا جا سکتا، ہاںان کو صیح راستے پر لگایا جا سکتا ہی۔انسان کی لاتعداد خواہشات میں سے ایک قیادت کی بھی خواش ہی۔اسلام نے قربانیوں کو پسند کیا ہی، اللہ تعالیٰ قربانیاں دینے والے صحا بہؓ سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوی۔ اسلام میں عہدے کی خواہش رکھنے والوں کو پسند نہیں کیا گیا۔ رسول ؐ اللہ نے بھی قیادت کی خواش رکھنے والے اشخاص کو ناپسند کیا ۔عہدے کی خواہش کے پیچھے کچھ محرکات ضرور ہوتے ہیں۔مثلا ّ میں فواہد حاصل کروں، لوگ میرے ماتحت ہوں، لوگ مجھے عزت دیں،لوگ میرا کہنا مانیں،میں لوگوں پر حکم چلاوں وغیرہ۔ایسی لاتعداد خواہش انسان میں پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن اور حدیث کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا جاے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ایک ہی خواہش کو پسند کرتا ہے وہ ہے جنتّ کی خواہش۔جب انسان قیادت کی خواہش کرتا ہے اور قیادت اسے مل جاتی ہے تو وہ منصوبے جو انسان کے اندر جمع ہو چکے ہوتے ہیں ان پر عمل کرنا شروع کرتا ہے جو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں، عہدے سے فواہد حاصل کرنا، ذاتی جاہ و جلال اور دوسری ایسی ہی چیزیں اللہ اور رسول ؐ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔
اس کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے اور اس کے ذمے یہ کا م لگایا ہے کہاللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس دنیا میں کام
کرے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خلیفہ لوگوں کو شرک سے بچاے ،رسول ؐ پر ایمان لانے کے لےی، آخرت کی جواب دہی پر تیار کرے ،آخرت میں حساب کتاب کے متعلق بتاے ، خود بھی اللہ کا بندہ بنے اور دوسروں کو بھی اللہ کا بندہ بنانے کی کوشش کری۔ان ہدایت پر جس کی نظر ہو گی وہ کبھی بھی دنیا حاصل کرنے والی قیادت کی خواہش نہیں کرے گا۔جماعت اسلامی کے ایک یونٹ حلقے کے ناظم کا تقرر کرتے وقت بھی جماعت اسلامی اس اصول پر کام کرتی ہے کہ ناپسندیدہ خواہش نہیں ہونی چاہیے ،کیونکہ یہ اعزاز نہیں ہے بلکہ ذمہ داری ہے جو ایک انسان اپنے ذمے لیتا ہی۔اُس کو کل اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے کہ جس دینی کام کے لیے مجھے لگایا گیا ہے وہ میں نے احسن طریقے سے کیا اس کا جو حق تھا میں نے ادا کیا یعنی اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ اس لیے یونٹحلقے سے لے کر جماعت اسلامی پاکستان تک اس قاعدے کی پابند ہی۔ بلکہ جو لوگ قیادت کے منصب پرلگاے جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رو رو کے دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس منصب کو پوری طر ح ادا کرنے کی صلاحیت عطا فرما۔ اور ہماری ناپسندہ خواہشات کو دبا دے ہماری خواہشات تیری مرضی کے مطابق ہو جاہیں۔ ہم تیرے بندے ہیں ہماری بشری کمزوریوں سے در گزر فرمااور ہمیں اس منصب کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔اس موقع پر دوسری جماعتوں کی طرح ایسے لوگوں کو جماعت کے لوگ مبارک باد نہیں دیتے بلکہ ان کے لیے دعاے استقامت کی دعاء کرتے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ جمات اسلامی ایک نظریاتی دینی جماعت ہے یہ اُسی ہی طرح کام کرنے کی کوشش کرتی ہے جس طرح قرآن شریف نے بتایا ہے حکومت الہیاّ قائم کرنے والے کارکنوں کو قرآن سے ہی ہدایت لینی چاہےی۔جماعت اسلامی کے نزدیک انسان کی فلاح اس بات میں ہے کہ انسان اللہ کا بندہ بن جاے اور اللہ کے بتاے ہوے رستے پرچلی۔اس سے واضح ہوا کہ حلقےیونٹ ،زون،تحصیل،ضلع اورصوبے میں قیادت کے منصب کے لیے جماعت کے کارکن خواہش نہیں رکھتے اُس کے لیے لابنگ نہیں کرتے بلکہ جماعت کا نظم استصواب راے کے ذریعے ان منصبوں پر کارکنان کا تقررکرتا ہی۔
قارئین ہم آے دن مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ملک کی دوسری سیکولر سیاسی جماعتوں اور دینی جماعتوں کے کارکنان کسطرح عہدے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور وہ اس منصب کی خواہش بھی رکھتے ہیں اور اس فاہدے بھی اُٹھاتے ہیں ۔وجہ دینی تعلیمات کی کمی ہے یا ناقص تصور دین ہے
جماعتیں اپنے سربراہوں کو تبدیل نہیں کر سکتیںان کے سربراہ آذاد مرضی سے بلیٹ پیپر کے ذریعے منتخب بھی نہیں ہوتے بلکہ جس شخص نے ایک سیاسی جماعت بناہی اُس کے بعد وہ اُس کی مورثی جماعت بن جاتی ہے باپ کے بعد بیٹا اُس جماعت کا سربراہ بن جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور نظر آ رہا کے چلتا رہے گا کیونکہ اس کے پیچھے خوہشات یعنی منصب ،سرداری،اور ذاتی فواہد ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کو اس مرض سے بچایا ہوا ہی۔جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی ؒ نے اپنی زندگی میں امارت سے استعفیٰ دیا اور آذاد راے اور خفیہ بلیٹ پیپر کے ذریعے جماعت کے ارکان نے میاں محمد طفیل کو اپنا امیر منتخب کیااس طرح تسلسل کے ساتھ قیادت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان کے مسلمانوں کی جماعت ہے اس کا امیر ہر کو ئی فرد بن سکتا جو اس کے آہین کا پابند ہو اور اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کری۔جماعت اسلامی کے کسی بھی منصب پر فرد کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تنظیم کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق چلاے ، اپنا تن من دھن سب کچھ اس کے بہترین مفاد میں صرف کر دے جماعت اسلامی کے امیر کے انتخاب کے موقع پر ارکانِ جماعت یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں کسی خواہش کا دخل تو نہیں کہیں لابنگ تو نہیں ہو رہی ہی۔جماعت کے ارکان امیر کے انتخاب میں تقویٰ،اسلام کے متعلق علم و فہم،راہِ خدا میں ثبات و استقامت اور دوسری خوبیوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی میں لوگ منصب کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ اس سے الٹ معاملہ ہوتا ہے ۔لوگ منصب سے دور بھاگتے ہیں۔کیوںکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کل آخرت میں اللہ کو جواب دینا پڑے گا ۔حضرت عمر ؓ کی با ت کہ دریاے فرات کے کنارے اگر کُتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر ؓ کو اللہ کے سامنے یوم آخرت میں جواب دینا پڑے گا ۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا واقعہ کہ کاش میں ایک چڑیا ہوتا درخت پر اِدھر اُدھر پھرتا مجھے آخرت میں اللہ تعالیٰ کو جواب نہ دینا پڑتا۔ یہ تھی سوچ خلفاء را شدین کی جو منصب پرفائز تھی۔جماعت کے لوگوں کے ذہن میں قرآن و حدیث سیرت اور صحابہ ؓ کی سیرت کے واقعات پڑھ کر ایک نقشہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوم حساب میں اُن لوگوں سے پوچھ گچھ کرے گا جو لوگوں کے سربراہ بنے ہوے ہیں۔ چاہے وہ کسی قسم کے سربراہ ہوں،خاندا ن کے سربراہ ہوں،قبیلے کے سربراہ ہوں، ملک کے سربر اہ ہوںیا وہ لوگ جن پر اُن کا دنیامیں حکم چلتا ہو یا لوگ اُن کی بات مانتے ہوں اللہ تعالیٰ اُن سربرا ہوں سے آخرت میں معلوم کرے گا کہ جن لوگوں پر تمہارا حکم چلتاتھا اُن کے ساتھ انصاف کیا اُن لوگوں کو اللہ کے راستے پر لگایا اور
اُن لوگوں کے حقوق کا خیال کیا ۔اِن باتوں کا جواب سربر اہوں نے اللہ کو دینا ہے ۔ قار ئین کیا آجکل کے سربراہ اِن باتوں کا خیال کرتے ہیں یا اُن کے نزدیک جائز اور ناجائز کا تصور بالکل نا پیدہوتا ہے ہر طریقے سے کوشش کرتے ہیں کہ سربراہ بن کر بیٹھ جائیں لوگوں پر ا پنا جائز ناجائز حکم چلا ئیں ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے جماعت اسلامی کے لوگوں کواللہ اس مرض سے دور رکھا ہوا ہے اور یہ اللہ کا خصوصی انعام ہی۔
sجماعت اسلامی کے انتخاباستصواب:۔اسلا ی جموریہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی ،مذہبی جماعتوں میں باقاعدگی سے اندرونی انتخاب نہیں ہوتے جسطرع جماعت اسلا می میں باقاعدگی سے ہوتے ہیں اس سے ایک طرف جماعتوں کی کارکنان کے انتخابی تربیت ہوتی ہے تو دوسری طرف وہ سیاسی پارٹیوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے کہ ٹیلنٹ آگے بڑہے اور اپنا منصب سنبھالے ۔اگر سیاسی پارٹی میں جمود ہو کہ کبھی اس طرف د ھیان ہی نہ دیا گیا ہوتو ٹیلنٹ رک جاتا ہے جو کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ آگے جا کر ان ہی لوگوں نے حکومت بنانی ہوتی ہے اگر پہلے سے ہی تربیت ہو گی ہو تو یہ کام آسان ہو جاتا ہی۔
جماعت اسلامی کے بنیادی حلقے (یونٹ) کی ٹیم کو امیر ضلع کی منظوری کے تقرر کیا جاتاہے اور یہ کام ہر سال ہوتا ہی۔جماعت اسلامی کے مقامی امرا ،ضلعی امرا اور امیر حلقہ کراچی کو باقاعدگی سے استصوب راے کے ذریعے ،طے شدہ مدت کے لیے امیر صوبہ تعینات کرتا ہے ۔صوبے کے امیر کے لیے ہر تین سال بعد استصواب راے ہو تا ہے اور اس استصواب راے کی روشنی میں امیر پاکستان امیر صوبہ کو تعینات کرتا ہے ۔
اسی طرح مقامی ، ضلع، حلقہ کراچی، صوبہ، اور پاکستان کی شوریٰ کا اپنی اپنی طے شدہ مدت کے لیے باقاعدگی سے اندونی انتخابات خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ارکان اپنی آذاد راے سے کرتے ہیں ۔امیر جماعت اسلامی پاکستان کا ہر پانچ سال بعد انتخاب ہوتا ہے جو کہ خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ارکان اپنی آذاد راے سے انتخاب کرتے ہیں۔
قارئین جماعت اسلامی پاکستان میں انتخاب کا سلسلہ شروع دِن سے جاری ہے جو ایک منفرد بات ہے کاش یہ بات دوسری سیاسی جماعتوں میں راج ہو جاے تاکہ اسلامیہ جموریہ پاکستان بھی ایک حقیقی جموری ملکوںکی صف میں شامل ہو جاے اور ہمارے ملک کا وقار بلند ہو۔
عوامی نمائندگی کا طریقہ کار:۔عوامی نمائندگی کے لیے مقامی کارکنوں سے استصواب کرایا جاتا ہے اُس کے بعد مقامی شوریٰ اُس پرغور وفکر کرتی ہے کافی بحث ومباثے کے بعد شورٰی اس نمائندے کو پاس کرتی ہے پھر اس نمائندے کو ضلعی شوریٰ میں فانئل کیا جاتا ہی۔ کراچی میں خصوصی طور پر حلقہ کراچی یہ کام کرتا ہے عوامی نمائندگی چائے مقامی ہو ،صوبائی ہو یا مرکزی جماعت اسلامی کا ایک ہی طے شدہ طریقہ کار ہے ۔جماعت اسلامی میں کوئی بھی شخص اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتاکہ و ہ الیکشن لڑے گا۔ بلکہ اگر کہیں اشارے سے بھی معلوم ہو جائے کہ فلاں بندہ اپنے آپ کو نمائندگی کے لیے پیش کر نے کی کوشش کر رہا ہے تو جماعت اسے ڈسکوالیفائیڈ قرار دے دیتی ہی۔
دوسری سیاسی جماعتوں کے بر عکس جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ فرد کے بجائے تنظیم کو عوام کے سامنے پیش کے جائے ۔تنظیم جتنی مظبوط ہو گی اس سے فائدہ زیادہ ہو گا ۔اگر تنظیم کمزور ہو گی اور افراد طاقت ور ہوں گی، افراد تو آنی جانی چیز ہوتے ہیں مگر تنظیم باقی رہ جانے والی چیز ہے اس لیے جماعت اس پر زور دیتی ہے ۔
دوسری سیاسی جماعتیں مظبوط افراد کو الیکشن کے لیے پیش کرتیں ہیںاور یہ پاکستان میں مروجہ طریقہ ہی۔سیاسی جماعتیں الیکشن کے موقع پر اپنے لوگوں سے ایک مخصوص فیس کے ساتھ درخواستیں طلب کرتیں ہیں اور اس کے بعد مرکزی قیادت اس کا فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو انتخاب میں پیش کرنا ہے ۔
سیاسی پارٹیوں کو عمو ماّ نظریات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔وہ صرف یہ دیکھتیں ہیں کہ کس کے پاس کتنا پیسہ ہی؟ کون کتنا پیسہ الیکشن میں خرچ کر سکتا ہی؟جیتنے کے بعد یہ پیسہ خرچکرنے والے لوگ ریاست سے اپنے پیسے وصول کرتے ہیں اسطرح کرپشن کا ناسور جنم لیتا ہی۔ لوٹا ازم یہی پیسہ خرچ کرنے والے لوگ ایجاد کرتے ہیں۔اسطرح اوپر سے نیچے تک ملک کو لوٹنے والوں کا ایک کلب وجود میں آچکا ہی۔اور ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہی۔یہ ناسور نہ توعدلیہ کے قابو میں آرہا ہے نہ انتظامیہ اسے درست کرنے کے لیے تیار ہے خود کرپشن کرنے والے ا پنے آپ کو کسیے درست کر سکتے ہیں ؟
جماعت اسلامی کا نمائندہ اپنے پیسے کے زور پر الیکشن نہیں لڑتا نہ کوئی پیسہ کے زور پر جماعت کی پالیسی تبدیل کر سکتا ہے بلکہ جماعت اسلامی اپنے بیت المال سے پیسہ خرچ کرتی ہے جو اس کے کارکنان دن رات کی محنت سے جمع کرتے ہیں جو کہ امانت کے طور پر جماعت کے پاس موجود ہوتا ہے جس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا جس کا سالانہ آڈٹ ہوتا ہے ۔ ہاں اگر کوئی نمائندہ اپنے پاس سے فی سبیل اللہ خرچ کرتا ہے تو کرے اس کا اجر اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں دے گا ۔ مگر جیت جانے کی صورت میں ریاست سے پیسہ بنانے کی کوشش کو جماعت ہرگز برداشت نہیں کرتی۔پیسہ بنانا تو دور کی بات ہے جماعت اسلامی کے جیت جانے والے نمائندے اپنے الاونس میں سے بچا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں ہر ماہ باقاعدگی سے دیتے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ آج تک جماعت اسلامی کے نمائندوں پر کرپشن کا الزام نہیں لگا ۔
جماعت اسلامی کے نمائندے امین ہوتے ہیں وہ اپنا اجر خدمت کے بدلے میں حکومت یا عوام نہیں طلب کرتے بلکہ اپنے رب سے مانگتے ہیں جو سب کو دیتا ہے اور بے حساب دیتا ہے اُن کا اجر آخرت میں محفوظ رہتا ہی۔ جماعت اسلامی اپنے نمائندوں کی تربیت اس طرح کرتی ہے کہ جماعت اسلامی میں ایک کلچر بن گیا ہے ۔اللہ کے راستے میں حکومت میں جاو اور اللہ کے راستے میں وقت ،روپیہ اوراپنی صلاحتیں خرچ کرو اور اپنے رب سے اجر کی اُمید رکھو۔
قارئین کیا پاکستان کی کوئی دوسری جماعت ایسا کلچر عوام کے سامنے پیش کر سکتی ہے ؟یقیناّ نہیں کر سکتی تو پھر یہ سیاسی جماعتیں عوام کو کس طرف لے جا رہیں ہیں ؟ عوام کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور اس امانت اور دیانتداری والے کلچر کو آگے بڑھانا چاہیے ۔لوٹ کھسوٹ،کرپشن،لوٹا ازم ،پیسے کمانے کی دوڑ کے کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ اس ملک پاکستان کو مالی نقصان سے بچایا جاے اور یہ پیسہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہو اور یہ ملک ترقی کی منازل طے کری۔ اور اس ملک پاکستان میں مدینہ کی اسلامی ریاست جو نبی ؐ نے قائم کی تھی اُس کا نفاذ ہونا چاہیے ۔اور خلافت راشدہ کا خواب پورا ہوجو پوری امت مسلمہ کی خواہش ہے اور جو پاکستانی عوام کی خاموش اکثریت کی بھی خواہش ہی۔ جس کے لیے جماعت اسلامی شروع دن سے کوشش کر رہی ہے ۔
جماعت اسلامی کی کامیابی۔اصولی،نظریاتی اور انقلابی تحریکیں بتدریج کامیابیوں پر نظر رکھتیں ہیں نہ کہ وقتی کامیابیوں پر۔اس کی مثال ہم اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جب کوئی فوج دشمن سے لڑ رہی ہوتی ہے تو جس مورچے پر وہ قبضہ کرتی ہے پہلے اس پر اپنی گرفت پکی کرتی ہے اس کے بعد آگے بڑتی ہے اسی طرح انقلابی تحریکیں جب ایک مقصد حاصل کر لیتی ہیں تب دوسرے مقصد کے لیے کام شروع کرتی ہیں۔
تقریباً پون سوسال پہلے کی بات ہے مسلمان برطانیہ،اٹلی،فرانس،پرتگال اور ہسپانوی قوموں کے غلام تھی۔ غلامی میںدوسری چیزوں کے علاوہ اس کے سوچنے سمجھنے والے لوگ معذرتخواہنہ رویے اختیار کرنے لگتے ہیں ۔ٹھیک اس سوچ کے مطابق مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے والے حضرات نے بھی معذرتخواہنہ نہ رویہ اختیار کر لیا تھا۔ اور دین کی تشریح کو صرف عبادات تک ہی رکھا اس پر ہی علامہ اقبال ؒ نے فرمایاتھا۔
ہند کے مسلمان کو ہے سجدے کی اجازت
ناداںیہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آذاد ….
لیکن اللہ نے اس دنیا کو کھبی بھی سلیم الفطرت انسا نوں سے خالی نہیں چھوڑا۔اسلامی دنیا میں علامہ اقبالؒ ،حسن البنا شہیدؒ، سید قطب شہیدؒ، عبدلواہابؒ،شاہ عبدلعزیزؒ،ابوالکلام آذادؒ
سید مودودیؒ اور دوسرے مسلمان حضرات نے اسلام کو مکمل دین کے طور پر پیش کیا۔پاکستان مسلم لیگ کی کوششوں سے بنا اس کا سلوگن تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا لا اللہ الاللہ‘‘..
’’لے کے رہیںگے پاکستان‘‘… ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ برصغیر ہند وپاک کے کونے کونے میں یہ نعرہ گونج رہا تھا۔جن علاقوں میں پاکستان کا وجود ممکن نہیں تھا ان علاقوں میں بھی یہی نعرہ لگ رہا تھا ان لوگوں نے یہ بات اس لیے کی تھی کہ مسلمانوں کو علحیدہ وطن ملے گا تو وہاں پر اسلامی رفا عی ریاست قائم ہو گی۔جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہی۔ ہر مسلمان کے دل میں خواہش ہے کے دنیا میں پھر سے مدینے جیسی ریاست بنے جو رسولؐ اللہ نے اللہ کے حکم سے قائم کی تھی اور خلفاء راشد ین نے کامیابی سے اس دنیا میں چلائی تھی۔جماعت اسلامی تحریک پاکستان کے دوران یہ بات تقرار سے کہتی رہی جو لوگ تحریک پاکستان چلا رہے ہیں ان لوگوں کو اسلام کا مکمل شعور نہیں ہے یہ پاکستان بننے کے بعد اس میں اسلام رائج کرنے میں مخلص نہیں ہونگے بلکہ جو اسلام رائج کرنے کی کوشش کرے گا اس کی مخالفت کریں گی۔پھر بھی تحریک پاکستان کے دوران جب قومیت کا مسلہ اٹھا اور کانگریسی علماء نے کہا کہ قومیں اوتاک سے بنتی ہیں یعنی وطن سے بنتی ہیں۔ تو مولانا مودودیؒ نے مسلہ قومیت پر مضامین لکھنے شروع کیے جسے مسلم لیگ نے پورے ہندوستان میں پھلایا اور اس سے پاکستان کی تحریک کو بہت فائدہ ہوا ۔مولانا کے یہ مضامین اب بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم ؒ نے مولانا مودودی ؒ سے کہا کہ آپ پاکستانی قوم کو بتائیں کہ اسلامی نظام کیسے رائج کیا جائے تو مولانا مودودی ؒنے ریڈیو پاکستان پر تقاریر کا سلسلہ شروع کیاکہ پاکستان میں اسلامی نظام کیسے قائم ہو گا یہ تقاریر اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکار ڈ میں موجود ہیں۔اگر قائد اعظم ؒ کو اللہ مزید زندگی دیتا تو وہ ضرور مولانا مودودیؒ اور دوسرے علماء سے یہ کام لیتی۔و ہی ہوا جس کا مولانا مودودیؒ نے خدشہ ظاہر کیا تھا پاکستان بننے کے بعد جب مولانا اور دوسرے علماء نے نظام اسلام کا مطالبہ کیا تو حکمرانوں نے اس کی مخالفت کی اور مولانا کو قید کر دیا۔
مولانا مودودی ؒنے ریڈیو پاکستان پر تقر یروں کے علاوہ ،اسلامی نظام کیسے قائم ہوتا ہے پر کتابچے لکھے اورجگہ جگہ پر لیکچر دیے کہ اسلام عصری تقاضے پورے کرنے کی صلا حیت رکھتا ہے اور اسلام کی ایسی تشریح کی جس سے نوجوانوں نے اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنا شروع کیا(orud to be a muslim))دیواروں پر لکھا جانے لگا ۔نوجوانوں کے چہروں پر سنت رسول ؐ آنے لگی۔عام مسلمانوں کو یہ حوصلہ ملا کہ شکرالحمداللہ ہم مسلمان ہیں۔ہمارا دین سب سے اچھا ہی۔اس میںہی نجات ہے ۔یہ جماعت اسلامی کی پہلی کامیابی ہی۔ اسلام نے اس دنیا میں سالوں سال حکومت کی ہی۔ مگر جمود کی وجہ سے اس کا شاندار د ور عام مسلمانوں کے دلوں سے محو ہو گیا تھا جیسے دوسری قومیں اپنے شاندار دور پر فخر کرتیں ہیں مسلمانوں میں یہ چیز ناپید تھی۔مولانا ؒ نے اس جمود کو توڑا اور بتایاکہ اسلام کا سیاسی نظام ہی۔ اسلام کا معاشرتی نظام ہی۔ اسلام کا تہذیبی نظام ہی۔ اسلام کا عدالتی نظام ہی۔ا سلام کا مالیاتی نظام ہی۔ اسلام کا خاندانی نظام ہی۔ا سلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہی۔اس کے علاوہ اسلام ایک نئی دنیا تعمیر کر سکتا ہی۔مولانا مودودی ؒ نے اسلام کو مدارسخانقاہوں اورمسلمانوں کے دلوں سے نکال کر عملی صورت میں پیش کیا۔لوگوں کو گوشہ نشینی سے نکال کر عملی دنیا میں آنے کا حوصلہ دیا۔یہ جماعت اسلامی کی دوسری کامیابی ہی۔ اسلام صرف کالوں کا مذہب نہیں! گوروںکا سانولوں کا یعنی ہر رنگ کے لوگوں کا مذہب ہی۔ ہمارے پیغمبر ؐ ساری انسانیت کے لیے عادی بنا کر مبعوث کے تھی۔وہ ؐ رحمت العٰا لمین ہیں یہ صرف مسلمانوں کا مذہب نہیں!، دنیا کی تمام قوموں کا مذہب ہی۔قوم پرستانہ نظریہ سے ہٹا کر جہانی نظریہ بنا دیا۔ لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانے کے لیے مسلمانوں کو اُبھارا۔ مولانا نے مسلہ قومیت پر کافی لٹریچر تیار کیا اور پاکستان کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بہت سے ملکوں میں یہ لڑیچر پہنچایا۔یہ جماعت اسلامی کی تیسری کامیابی ہی۔جس نظریے کو ذہنوں میں بٹھایا اس کے عملی نفاذ کے لیے لاکھوں انسانوں کو کام پر لگایا دیا کہ وہ دوسروں کے لیے کام کریں انسان صرف معاشی جانور نہیں ہے بلکہ اشرف ا لمخلوقات ہی۔اللہ نے انسان کو دوسروں کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہی۔دنیوی فائدے کے لیے نہیں آخرت کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے ۔نیکی کر کے دنیاوی فائدہ نہیں بلکہ آخرت میں فا ئدا کی تمنا ہو۔یہ جماعت اسلامی کی چھوتھی کامیابی ہی۔ریاستوں کے نظریے تبدیل ہو گیے ہیں قباہلی نظام سے تبدیل ہو کر ایک گلوبل سوچ در آئی ہی۔اب بادشاہت نہیں دستوری حکومتیں ہیں نئے انداز میں کام کرنے کے راستے وجود میں آئے ہیں۔ اجتہاد کی ضرورت تھی۔ اس لیے مولانا مودودیؒ نے سب سے پہلے حکومت سے اسلامی دستوری مطالبہ رکھا ایک زبردست دستوری تحریک پاکستان میں بر پا کی اس سلسلے میں حکومت نے مولانا کو جیل میں بند کر دیا۔پارلیمنٹ میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے کوشش کی اور قراداد مقاصد کو پاکستان کے آئین میں دیباچے کی شکل میں رکھنے کی کامیابی حاصل کی۔بعد میں جرنل ضیا الحق کے دور میں قرداد مقاصد کو آئین کے اندر داخل کر دیا گیا۔اس کے بعد ۳۷۹۱ ء ذلفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں موجودہ اسلامی دستور بنا۔ مولانا نے پاکستان کی تحریک کے دوران کہا تھا مسلم لیگ والے اسلامی نظام رائج کرنے کے بجائے اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کو جیلوں میں بند کریںگی۔ وہی ہو اسلامی نظام کے مطالبہ پر مولا مودودی ؒ کو ملتان جیل میں بند کر دیا گیا مگر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس تحریک کو جاری رکھا۔ مولانا کی زیرک نگاہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کے دنیا میں کسی بھی اسلامی ملک میں اسلامی دستور نہیں اور اسلام کے لیے کام کرنے والوں کو ان ملکوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیںاس لیے شروع سے ہی ملک پاکستان کواسلامی دستوری ملک کے راستے میں ڈال دیایہ جماعت اسلامی کی پانچویں کامیابی ہی۔جماعت اسلامی عرفِ عام میں مذہبی جماعت نہیں اور نہ سیاسی جماعت ہے بلکہ یہ دینی جماعت ہے جس میں مذہب اور سیاست دونوں شامل ہیں جو اس ملک پاکستان میں حکومت الہیاّ قائم کرنا چاہتی ہی۔ الہذا یہ اسٹپ بائی اسٹپ چل رہی ہے اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہی۔ایک وقت آئے گا کہ اس کی کوششوں سے اس اسلامی جموریہ پاکستان ،جس کا آئین اسلامی ہے ایک مکمل با برکت اسلامی نظام کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ عدل کا نظام ہو گا، انصاف ہو گا، مساوات ہو گی،بھائی چارا ہو گا ،امن وآمان،عام انسان کو عزت ملی گی،ہم اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوں گے اور اللہ ہم سے راضی ہوگا۔ پھر آسمان سے رزق برسے گا، زمین اپنے خزانے اُگلے گی۔
اللہ ہمارا حامی وناصر ہو آمین۔۲ ۳ 9جماعت اسلامی کو چلانے والے لوگوں کے اوصاف:۔ ایک نظریاتی تنظیم،خاص کر حکومت الہٰیا قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والی تنظیم کے افراد کار، یعنی جو تنظیم چلانے والے ہوں ،اُن کی کیاخوبیاں ہونی چاہیے ۔ اِس تنظیم کو ہر رنگ میں رنگے جانے والی،پانی کے بہاو پر بہہ جانے والی،بھات بھات کی بولیاں بولنے والی، ذاتی مفادات والی، کم ہمت والی،منصب کے لیے کوشش کرنے والے اور پلاٹ پرمٹ کی سیاست کرنے والے حضرات نہیں چلا سکتی۔نظریاتی تنظیم کو چلانے والے افراد ، صبغت اللہ کے رنگ والی،چٹانوںسے ٹکر لینے والی،پانی کے بہاو کا رخ موڑ نے والے ،پنے مقصد سے جڑ جانے وا ے ، ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے والی،فی سبیل اللہ کام کرنے والے ،دنیاوی فائدوں پر آخرت کے فائدوں کو ترجیح دینے والے ہی صحیح طریقہ پر چلا سکتے ہیں۔جماعت اسلامی نے اپنے افراد کار کے لیے کچھ قواعد اوًل روز ہی سے طے کر دیئے ہیں ۔جماعت اسلامی کو لے کر چلنے والے افرادکے حسب و نصب ،دنیاوی جاہ وجلا ل اورعلمی اسناد دیکھ کر مرتبہ اور درجہ کا تعین نہیں ہوتا۔ وہ اِن معاملات میں چاہے کتنے ہی بڑے حسب و نصب رکھتے ہوں،وہ سید ہوں،پٹھان ہوں،بڑی برادری واے ہوں، بڑے مال و دولت والے ہوں،بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہوں،بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے فارغ لتحصیل ہوںاور بڑی بڑی ڈگریاں رکھتے ہوں جماعت کے کسی منصب کے قابل نہیں جب تک وہ اللہ کے دین کو قائم کرنے میں مخلص نہ ہوں۔اِن کا یہ خلوص، اِن کے اللہ اور رسول ؐ سے تعلق کاثبوت اُن کی قربانیوں سے دیکھا جاے گا جو وہ ایک نظریاتی تنظیم کے لیے عملی جد و جہداور مادًی قربانیوں سے کرتے ہیں۔ ۴ ۵ ۶ ۷
وقار بھائی کی وساطت سے اس سائٹ کا تعارف ہوا . بہت خوشی ہوئی کہ تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے بھی بلاگنگ کی دنیا میں آرہے ہیں.
مضمون بہت اچھے موضوع پر ہے. اس حقیقت کا اعتراف دوست دشمن سب کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تنظیم شورائیت اور جمہوریت کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں جو صبح شام جمہویت کی مالا جپنے والوں کے یہاں یکسر مفقود ہے.
آپ سے عرض ہے کہ جماعت اسلامی امانت ہے مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے تحفہ ہے برادرم۔