با لآخر ریمنڈ ڈیوس کی فائیو اسٹار اسیری ختم ہوئی جسکی چند ہفتوں کی میزبانی
یقیناً کوٹ لکھپت کے سالانہ بجٹ پر بھاری رہی ہوگی باوجود اسکے کہ بہت سے اسرار پر پردہ پرا ہوا ہےاور شاید پردہ ہی پڑا رہے لیکن یہ حقیقت آشکار ھو گئی کہ امریکہ کےلئے اس کے شہری کی جان کی کیا قیمت ہے قرآئن بتاتے ہیں کہ سب کچھ یکدم نہیں ہوگیا ہے ہی ایک پیکج ڈیل تھی اسلام کی جہاں ضرورت پڑی اسے استعمال کر لیا گیا کم از کم پوری دنیا لفظ “دیت” سے آشنا تو ہو گئی ۔حالانکہ اس معاملہ کو جان بوجھ کر دو افراد کے قتل تک محدود کرنا دراصل اسے دیت کے ذریعے رھا کرانے کے منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کوئ قتل کا “عام” مقدمہ نہیں تھا جسکا سادہ سا حل دیت کی صورت میں نکل سکتا تھا یہ کھلا ہوا جاسوسی کا کیس اور قومی سلامتی کا مسئلہ تھا دیت کا معاملہ آتا بھی تو سب سے آخری حل ہو سکتا تھا -جبکہ امریکی حکومت نے تو رہا ئی کے لئے دیت کی ادائیگی تک سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکی قانون نہیں ہے بلکہ سب کچھ پاکستانی قوانین کے مطابق ہوا ہے-جبکہ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر عافیہ پر تو کوئی الزام ثابت تک نہیں ہوا اس کے باوجود اسکی 80 سال کی سزا کو امریکی قانون کا تقاضہ قرار دیا گیا اور پاکستان میں ایک امریکی نے سرِعام دہرے قتل کی واردات کی تو اسے شرعی احکام سے فائدہ پہنچا دیا گیا امریکہ تو اپنے مطلوب لوگوں کو ہماری سرزمیں سے اٹھا کرلے جاتا ہے اور ہم اپنے شہریوں کو اپنی سرزمین پر بھی تحفظ دینے میں ناکام……!!!!
حقیقت یہ ہے کہ بھوک کی زنجیروں میں جکڑے غیرت اور حمیت کو نیلا م کرنے والے معاشروں میں یہی کچھ ہو سکتا ہےنظامِ انصاف کا کمزورو ناتواں وجود قانون کے لرزتے ہوئے دست و بازو کب تک اس قاتل کے بوجھ کو اٹھا سکتے تھے ؟؟؟بھیک کی روٹی کھانے والے اور قرض کے مئے پینے والے اسی طرح کے خون بہا ادا کیا کرتے ہیں ہم جو ڈرون حملوں کے حق میں ڈنکے کی چوٹ پر دلائل دیا کرتے ہیں اور اپنے عوام کے قتل و غارت گیری کا جواز پیش کرتے ہیں اور انکا ایک قاتل اٹھارہ کڑوڑ عوام کی غیرت و حمیت کو للکارتا ہوا پورے سرکاری تحفظ کے ساتھ امریکی ائیر فورس کے طیارے میں بحفاظت قید سے نکال کر آزاد فضائوں میں پہنچادیا جاتا ہے !!!!
وہ حکومتی مشینری جو کراچی کی ٹارگٹ کلنگ روکنے میں ناکام ،خودکش حملوں کو روکنے میں ناکام ،مہنگائی کے بے قابو جن کو روکنے میں ناکام ،ایک قاتل کو بچانے میں کامیاب ہو گئی!!!! در حقیقت اپنے تخت و تاج کو بچانے میں کامیاب ہو گئی!!!! کسی کا تخت و تاج کب تک سلامت رہتا ہے ؟؟؟؟ سو برس کا سامان پل بھر میں پانی کا بلبلہ بن جاتا ہے –قدرت کب کس سے انتقام لینے پر اتر آئے ؟؟؟کس کو کب تک مہلتِ عمل ہے؟؟؟؟ کوئی نہیں جانتا امین کو لگنے والے پے درپے جھٹکے بھی ہمیں ہمارے انجام سے باخبر کرنے کو ناکافی رہتے ہیں –محض 3 منٹ اور 10 سیکنڈ کا زلزلہ جس نے الیکٹرانک دنیا کے بے تاج بادشاہ جاپان میں جو تباہی مچائی اس آگ اور پانی کی تباہی نے دنیا کو حیرت اور خوف میں مبتلا کر دیا –ایٹمی یونٹ میں ہونے والے پے درپے دھماکے اور 4 دن میں زلزلہ کے 200 سے زائد جھٹکے وہ جوہری بجلی گھر جو ان کے ماتھے کا جھومراور انکا تشخص تھے آگ اور تابکاری خارج کرنے لگے اور انکے لئے موت کے پیامبر بنے تو بنے پوری دنیا کو الگ دہشت زدہ کرنے کے کام آگئے جب اللہ کی گرفت ہوتی ہے تو یونہی قومیں اوندھے منہ گر جاتی ہیں جیسے کبھی اپنے گھروں ہی میں نہ ہوں!!! چاہے لاکھ ہم سائنس کی گود میں پناہ لیں !!! اسے زیرِ زمین پلیٹوں کی رگڑ کہنے میں لگے رہیں !!!!یا چاند کی قربت کو موردِالزام ٹھہرائیں!!!ارضیاتی تغیر و تبدیلی کہہ کر خود کو مطمئن کر لیں حقیقت تو یہ ہے کہ رب کی پکڑ بہت سخت ہے –بڑی بڑی طاقتوں کے ایٹمی ری ایکٹر کھائے ہوئے بھس بن جاتے ہیں اللہ کی اٹھائی ہوئی 13 میٹر لہروں کے سامنے سب کچھ بے بس !!!!
تمام احتیاطی تدابیر اپنی موت آپ مر گئیں قدرتی آفات کے یہ جھٹکے بھی ہمیں عبرت دلانے میں ناکام ہیں یہ سیلاب زلزلے قدرتی آفات جو رب کی ناراضگی کا کھلا اظہار ہیں ہماری تمام عقلی تاویلوں اور علمی دلیلوں کو بہا لے جاتی ہیں قدرت ہمیں بار بار پلٹنے کے مواقع احتساب کے مواقع فراہم کرتی ہے-اجتماعی گناہون کا کفارہ قومیں ادا کیا کرتی ہیں ہم ان حکمرانوں کی صورت میں اپنے قومی گناہوں کا کفارہ معلوم کب تکادا کرتے رہیں گے –حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک بنی اسرائیل کی قوم فرعون کو غلامی اور ذلت کا ٹیکس ادا کرتی رہی وہ ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا رہا اور جب قوم نے ظالم حکمرانوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا تو دریائے نیل کو حکم دیا کہ اس ظالم کا کام تمام کر دے جب عوام کے سروں میں کٹ مرنے کا جنون پیدا وقت کے دریا کو حکم ہوگا کہ کہ ان کےحکمرانوں کو غرق آب کر دیںِ ورنہ ہم یو نہی امریکہ کو ذلت اور غلامی کا ٹیکس ادا کرتے رہیں گے اور ہمارے بیٹوں کے سر تن سے جدا ہوتے رہیں گے امت پر جو عجب وقت پڑا ہے وہ دعاؤں سے ٹل نہیں سکتا آرزوئیں اور امیدیں اس ذلت و سکنت سے نہیں نکال سکتیں ہمیں اپنی اجتماعی قوت کو شتر غد کرنا ہوگا–کسی بڑی تبدیلی کے لئے لوگوں کے اذھان کو بدلنا ھوگااور اس پیکرِ خاکی میں جان پیدا کرنے کے لئے اپنا وقت اور جان لگانا ہوگی اور رائے عامہ کو بیدار کرنا ہوگا کہ ایک با بصیرت قیادت اس وقت ملک کی سب سے بڑی ضرورت ھے۔
افشاں جی آپ کی تحریر حقائق پر مبنی ہے چاہے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہوں پر حقیقت تو حقیت ہوتی ہے۔ ہمیں شرم آتی ہے خود پر، ہم کیسی قوم ہیں؟ نہ ہمارے پاس غیرت ہے نہ کوئی عزت۔ جس کا جب جی چاہے ہمیں ہمارے ہی گھر میں آ کے مار ڈالے یا ہمیں چند ٹکوں کے ایوض خرید لے۔۔۔۔