عورت ہمیشہ سے تاریخِ انسانی کی صنف مظلوم رہی -وہ مختلف تہذیبوں میں مختلف مسائل کا شکار رہی-
قبل از اسلام میں بھی عورت کی حالت قابل رحم تھی اسے انسان کے مرتبے پر ہی نہ سمجھا جاتا تھا- ان حالات میں حضور نبی اکرمٌ اپنے ساتھ وہ نظام لائے جس میں عورت کو انسانیت کا شرف دیا گیا اور اسلام کا تصور عورت ان سب سے جدا اور حقیقت پر مبنی تھا اور فطرت کے ہم آہنگ بھی ،ہے بھی اور رہے گا بھی
اس نے مرد و عورت کو ایک اکائی اور ایک وحدت تصور کیا -انہیں حقوق اور اجر و ثواب اور عذاب و پاداش میں یکساں قرار دیا مگر ان کی فطرت کے موافق ان کے میدان الگ الگ رکھے – مگر جب یہ تعلیمات نظروں سے اوجھل ھونا شروع ہوئیں تو پچھلی صدی کے اوائل میں عورت اور اس کے مسائل پھر سے سر اٹھانا شروع ہوئے اور انہیں ایک خاص تناظر میں اجاگر کیا گیا انسان کی نظر میں انسانوں کی تعداد بڑھی اور وسائل کم ہوئے -وسائل کی کمی غربت کی زیادتی،اور بنیادی حقوق کی پامالی سے سب سے زیادہ متاثر خواتین کا طبقہ ہوا – خواتین کا منظر نامہ مظلوم ،مقہور،مجبور،اور بنیادی حقوق سے محروم بنا جس میں تعلیم، صحت، شادی، اظہار رائے کی آزادی، فیصلہ سازی جیسے اہم امور شامل ہیں -ان نا انصافیوں اور حقوق سے محرومیوں نے تحریک آزادی نسواں کی داغ بیل ڈالی لیکن یہ بھی حالات کی ستم ظریفی ہے کہ حقوق کے نام پر اٹھنے والی تحریک کے ثمرات بھی آج کی عورت کچھ زیادہ نہ پا سکی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس نے آکرکار عورت کو مزید محرومیوں کا شکار کر دیا
فیس بک تبصرے