اللہ اور تنخواہ
شاہ نواز فاروقی
اکبرالٰہ آبادی اور سرسید احمدخان کا فرق دوشخصیتوں کانہیں دوکائناتوں کا فرق ہے۔ اکبرالٰہ آبادی کی کائنات خدا مرکز کائنات ہے اور سرسید کی کائنات تنخواہ مرکز کائنات ۔ اکبرالٰہ آبادی نے اس فرق اور اس کے اثرکو ظاہرکرتے ہوئے فرمایاہے۔ نہیں کچھ اس کی پرسش الفت اللہ کتنی ہی یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہی اکبرکی کائنات کے خدا مرکزہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔ اس کائنات میں جوکچھ تھا اللہ تعالیٰ کی وجہ سے تھا اور جوکچھ نہیں تھا اس کا سبب بھی اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔ اس کائنات میں ہرچیز اللہ تعالیٰ سے شروع ہوتی تھی اور اسی پرختم ہوتی تھی۔ اس کائنات میں ہرچیز اپنے ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج تھی۔ خیروشر‘ حسن وقبیح‘ نیکی وبدی ‘فائدہ ونقصان غرضیکہ ہرچیز کا تعلق اللہ سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کائنات میں انسان کی عظمت کا دارومدار اس بات پرتھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کتنا قریب ہے اور اسے اللہ سے کتنی محبت ہے۔ اس کائنات میں دولت عزت اور اہمیت بھی اس ہی سے تعلق تھے۔ چنانچہ تعلیم وتربیت کا پورا نظام اللہ تعالیٰ اور اس کی محبت کے گرد گھومتاتھا۔ سرسید کی فکرکے زیراثراس کائنات میں ایک زبردست تغّیررونما ہوا۔ اس کائنات کا مرکز اللہ سے تنخواہ کی جانب منتقل ہوگیا۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی کہ اس کے ادراک اور اظہارکے لیے اکبرالٰہ آبادی جیسی بڑی شخصیت کی ضرورت تھی ۔ اکبرکا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کائنات کی مرکزکی تبدیلی کا اظہارکرتے ہوئے تنخواہ میں بھی ایک طرح کی مذہبیت ‘تقدیس اور الوہیت پیداکردی ہے۔ وہی مذہبیت وہی تقویس وہی الوہیت جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق تھی۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کرنا ہوتو کہاجاسکتاہے کہ اکبرکی کائنات کا مرکز خدا تھا او رسرسید نے پیسے یا تنخواہ ہی کو خود بنادیا۔ ظاہرہے اس صورت میں تنخواہ کے ساتھ ان تمام تصورات کو وابستہ ہوناہی تھا جوکبھی خدا سے متعلق تھے۔ یہ اتنی زبردست تبدیلی تھی کہ پورا معاشرہ اس کی زدمیں آگیا۔ اس کا اظہار تو اکبرکے شعرمیں موجود ہے۔ اکبر فرماتے ہیں ”سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے۔ اس مصرعے میں ”سبھی“ کا لفظ اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل معاشرے کے کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ معاشرے کے ایک طبقے نے پیسے یا تنخواہ کو خدا بنا لیاتھا۔ اورمعاشرے کے دیگر طبقات اس خرابی سے بچے ہوئے تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ معاشرے کے وہ طبقات بھی اس کی زدمیں آگئے تھے جو بظاہر سرسیدکی فکرکے دائرے سے باہرکھڑے ہوئے تھے چنانچہ ہمارے گھروں میں بھی ایسے بزرگ مل جاتے ہیں جو انگریزوں کے خلاف 1857ءکی جنگ آزادی کو جنگ آزادی کے بجائے ”غدر“ یعنی فتنہ وفساد کہہ کرپکارتے ہیں۔ ان حقائق سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اکبرکے یہاں ”تنخواہ“ کا مطلب محض پیسہ نہیں ہے۔ اس کا مفہوم ایک یا چند ماہ کی محنت کا معاوضہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اکبرکے یہاں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ آپ کہیں گے کہ آپ نے تنخواہ کو خدا کہہ دیا تو اب کہنے کے لیے اورکیا رہ گیا لیکن اس حتمی شعورسے نیچے بھی تنخواہ کے کئی رنگ اور کئی روپ ہیں۔ اس کا ایک رنگ اورایک روپ یہ ہے کہ وہ انسان کے معاشی وجود Economic Existence کا استعارہ ہے۔ یعنی تنخواہ انسان کی پوری معاشی جدوجہد اور تگ و دوکو بیان کرتی ہے۔ اس کا دوسرا روپ یہ ہے کہ وہ انسان کے سماجی وجودیا Social Existence کی علامت ہے۔ ان دونوں باتوںکا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی یہ بتاتاہے کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے تو وہ دراصل یہ بتاتاہے کہ وہ معاشی اور سماجی معنوں میں کتنا اہم ہے۔ اس کی معاشی اورسماجی خودی کتنی بلندہے۔ اس کی معاشی اور سماجی تکریم کا کیا عالم ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ سرسیدکی فکرکے زیراثرتنخواہ کو اتنی اہمیت حاصل ہوتی تو اس کے نفسیاتی اسباب کیاتھے۔؟ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ جس طرح ہمارے رروایتی معاشرے میں دولت اور زمین جائیداد ”ورثے“ میں کچھ کیے بغیر کسی اہلیت وصلاحیت سے قطع نظر مل جاتی تھی تنخواہ اس طرح کسی اہلیت وصلاحیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی تھی۔ گو ورثے کے ماڈل کے مقابلے پر تنخواہ کا ماڈل انگریزوں کا لایا ہوا نیا علم اور ان کی پیداکردہ نئی اہلیت وصلاحیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو تنخواہ ایک ”بڑی چیز“ نظرآتی تھی اور اب تک آتی ہے۔ تنخواہ کی اہمیت کا ایک نفسیاتی سبب یہ تھا کہ جاگیردارانہ معاشرے میں زمین جائیداد اور ورثے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کی جو اہمیت بھی ہومگراس کے ساتھ حکومت اور ریاست کے اختیار کی طاقت نہیں تھی۔ اس کے برعکس تنخواہ حاصل کرنے والے لوگ انگریزوں کے زمانے میں تمام کے تمام سرکاری ملازم تھے۔ ایک جانب وہ اپنی خدمات کے عوض تنخواہ حاصل کرتے تھے اور دوسری جانب ان کے پاس حکومت وریاست نہیں”سلطنت برطانیہ“ کی طاقت تھی اس لیے کہ وہ سلطنت برطانیہ کے کارندے اور اس کی علامت تھے۔ مطلب یہ کہ ان کے پاس دوہری طاقت تھی جوان کے سوا کسی کے پاس نہیں تھی۔ مطلب یہ ہے کہ روایتی ورثہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت اور جائیداد کے ساتھ صرف ”ذاتی جمال“ تھا لیکن تنخواہ حاصل کرنے والے کے پاس ”سرکاری جمال“بھی تھا اور ”سرکاری جلال بھی۔ ظاہرہے کہ یہ چیزیں لوگوں کے شعور میں نہیں تھیں مگر لاشعوری طورپرپورا معاشرہ ان کا قائل ہوچکاتھا۔ البتہ تنخواہ کو ابھی ایک اور اہم مرحلہ طے کرنا تھا۔ تنخواہ ابھی تک ذہانت اور طاقت تھی مگر وہ ذمہ داری‘ شرافت‘ اور محبت نہیں تھی۔ سرسید کے زمانے میں بھی شرافت اور محبت کے معیارات اور ہی مگر
ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ تبدیلی رونما ہوتی ہے کہ اب تنخواہ ذمہ داری اورشرافت ومحبت بھی بن گئی ہے۔ انسان کو تنخواہ مل رہی ہو اور ابھی تنخواہ مل رہی ہو تو خواہ وہ سماجی معنوں میں ذمہ دارنہ بھی ہو تو بھی اسے ذمہ دارانسان سمجھاجاتاہے۔ لیکن تنخواہ کے متاثرہوتے ہی اسے اچانک غیرذمہ دارقراردے دیاجاتاہے۔ بالکل اسی طرح تنخواہ محبت اور شرافت کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بازار زندگی میں محبت اور شرافت کو کوئی نہیں پوچھتا جسے دیکھیے ”معیشت“ کا دیوانہ ہے۔ معیشت مضبوط ہو تو انسان میں محبت اور شرافت فرض کرلی جاتی ہے اور پورا معاشرہ انہیں محبت اور شرافت کی سند عطاکردیتاہے۔ معیشت مضبوط نہ ہوتو انسان کی شخصیت کا ہرپہلو ”مشتبہ“ یاکم ازکم ”دھندلاہوجاتاہے“ لیکن تنخواہ یا مالی حالت کا جادو اس سے بھی آگے نکل چکاہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تنخواہ اور اس کی اہمیت سرسید کی فکر کاحاصل ہے مگر سرسید کے زمانے میں بھی حلال اور حرام کی تمیزتھی مگر اب بحیثیت مجموعی حلال وحرام کے تصورات بھی غیرموثر ہوگئے ہیں اب لوگ صرف تنخواہ یا زیادہ تنخواہ یعنی آمدنی کو دیکھتے ہیں۔ آمدنی زیادہ ہوتو کوئی سوال سرنہیں اٹھاتا۔ پھر ہرچیز روا ہوجاتی ہے۔ یہ صورتحال معاشرے میں دولت کے واقعتاً خدا بن جانے کا اعلان ہے۔
فیس بک تبصرے