لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر میرے اطراف میں پھیلے ہوئے کالم ،اخبارات میں اب تک آتی سر خیاں ،میڈیا پر ہر ایک کے منہ سے نکلتی دکھ بھری حقیقتیں جو یقینا تاریغ میں سنہری حرفوں سے لکھی جائیں گی مجھے پھر اسی طرف لے آتی ہیں اور میں حیران پریشان سی اپنے ذہن…
یکے بعد دیگرے کئی دردناک مضامین لکھتے لکھتے آج میرا قلم بھی سراپا احتجاج تھا جس نے ابھی نیا نیا چلنا ہی سیکھا تھا کہ اتنے تکلیف دہ مناظرکو قلم بند کرنا یقینا اس کے حوصلے کا امتحان تھا مگر میں کیا کروں کہ۔ جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں کہاں سے لاوٴں…
نہ جانے کون سی گھڑی تھی کہ جب اخبار میں ایک اشتہار پر نظریں چپک کر رہ گئیں۔بڑی مشکل سے یعنی مجازی خدا کی پکار پر ہٹیں تو بھی دل ودماغ اس میں اٹک کر رہ گئے۔اشتہار کیا تھا دعوت نامہ تھا کہ آ بیل مجھے مار ۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے عوام کو…
تین معصوم کلیاں اور کچل دی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یقین نہیں آیا ناں کہ۔۔۔۔۔۔۔اور واقعتا پائوں تلے کچل ڈالی گئیں!!! اف اتنی سنگ دلی، شقی القلبی! وحشت وتشدد کی انتہا! آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالِ نو کی آمد پر جشن کیاہوا؟ غارتگری کا سامان ہوا۔ مگر ذرائع ابلاغ نے اس سنسنی خیز خبر کو چھپایا۔ دبیز پردے ڈالے رکھے۔ بریکنگ نیوز…
با ت نہ نئی تھی نہ بظاہر بڑی! لیکن نہ جانے کیوں اسلم صاحب کی سوئی اٹک کر رہ گئی تھی. آفس سے آکر فریش ہونے کے بعد کھانے کی میز پربیٹھتے ہی انہوں نے ٹی وی ریموٹ اٹھالیا. یہ روز کا معمول تھا ہر لقمے پر چینل بدلنا! کچھ عادت سی ہوگئی ہے. لیکن…
آج کل ٹی وی کے تمام چینلز میں لائیو شوز لازمی تصور کیے جارہے ہیں۔ جن میں سیٹ کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ میزبان کے پُرکشش ظاہرکی نوک پلک بڑی محنت سے سنواری جاتی ہے۔ ان لائیو شوز میں فون کالز کو بڑی خوشی سے سنا جاتا ہے۔ جن میں کبھی سیاسی ایشوز کبھی گھریلو…