قارئین، ’’زمانے کے انداز بدلے گئے‘‘ سو نئے راگ اور نئے ساز کی ضرورت ہے۔ بچپن سے حکایاتِ سعدی و رومی پڑھتے اورسردھنتے چلے آرہے تھے۔مگر اب زمانہ اور رواج بدل چکا۔ پرانی اصطلاحات متروک ہو چکیں، بادشاہ اور خزانے کہیں دکھائی نہیں دیتے اور انگلش میڈیم میں پڑھنے والے بچے قبا،دہقان اور ڈونگی جیسے…
اگر میں کسی کو بھول نہیں رہا تو کراچی سے شعیب صفدر اور کاشف نصیر، فیصل آباد سے شاکر عزیز، ملتان سے ریاض شاہد، گجرات سے بلال محمود، لاہور سے زوہیر چوہان، اسلام آباد سے محمد سعد اور راولپنڈی سے خرم ابن شبیر، راجہ اکرام یعنی یہ کل ملاکر کوئی آٹھ نو مستقل اردو بلاگرز…
جون ٢٠١١ میں امریکی صدر بارک اباما نے پہلی بار افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ امریکا مستقبل میں اپنے افغان مشن کو جنگی کے بجاۓ افغان مدد گار کے رخ پر ڈھال دیا جائے گا لیکن ٢٠١٤ تک مکمل انخلا کا کوئی با…
لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر میرے اطراف میں پھیلے ہوئے کالم ،اخبارات میں اب تک آتی سر خیاں ،میڈیا پر ہر ایک کے منہ سے نکلتی دکھ بھری حقیقتیں جو یقینا تاریغ میں سنہری حرفوں سے لکھی جائیں گی مجھے پھر اسی طرف لے آتی ہیں اور میں حیران پریشان سی اپنے ذہن…
آج کا دن کچھ مختلف سا لگا شاید اسلئے کہ مایوسی کی اس فضا میں کہیں سے بھی ہلکی سی بھی کوئی کرن نمودار ہو تو ہمیں امید نظر آنے لگتی ہے۔ آج بھِی ایسا ہی کچھ ہواتھا صبح حامد میر صاحب کے کالم “بکواس ” سے ہوئی ابھی وہ پڑھ کے فارغ ہی ہوئی…
لوگوں کا اژھام ۔۔۔ انٹرنس گیٹ سے لے کر پارکنگ ایریا تک تا حد نظر لوگوں کے سر ہی سر ،گھنٹوں لائنوں میں لگے بچے ،بوڑھے ،جوان عورتیں اور مرد ۔۔۔۔ یہ وارفتگی بے وجہ تو نہیں —–آخر رخ لیلہ تھا تماشہ تو نہیں تھا۔۔۔ جس نبی کی تعلیمات کا آغاز ہی اقرا سے ہو…
ٹوٹے پتوں کا دکھ اس کے زرد رنگ میں تو عیاں ہوتا ہی ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ پتے اپنی شاخوں سے کرنے کا شوق کیسے رکھتے ہیں؟ جو شاخ ساری زندگی ان کو خوراک دیتی ہے، کونپل نکلنے سے ایک خوبصورت پتا بننے تک اس کی نشوونما جاری رکھتی ہے…
آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ بہت دیر تک صرف یہی سوچتی رہی کہ میں کہاں سے اور کیسے شروع کروں ؟ آج مجھے الفاظ کا چناوٴ انتہائی دشوار لگ رہا تھا شائد یہی وہ دشواری تھی جس کو ختم کرنے کے لیے ہمارا میڈیا نے دن رات ایک کیا ہوا ہے اور…
پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان ذیشان عباسی کو ناشتے کی ٹیبل پر گلاس میں پانی کی جگہ تیزاب دیا جسے پی کر انکی حالت بگڑ گئی اوروہاں ہسپتال لیجانے والا کوئی نہیں اور جب ہسپتال پہنچےتو وہاں اٹینڈ کرنے والا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں اور کافی دیر وہ اسی حالت میں ڈاکٹر کا انتظار…
یکے بعد دیگرے کئی دردناک مضامین لکھتے لکھتے آج میرا قلم بھی سراپا احتجاج تھا جس نے ابھی نیا نیا چلنا ہی سیکھا تھا کہ اتنے تکلیف دہ مناظرکو قلم بند کرنا یقینا اس کے حوصلے کا امتحان تھا مگر میں کیا کروں کہ۔ جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں کہاں سے لاوٴں…