دل نہایت غمگین تھا۔ اتنے عرصے کی محنت محض ایک فیصلے سے غارت ہوگئی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ لوگوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ مستقبل کا سوچو تو مکمل اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔حالات کیسے بدلیں گے؟ ملک کی تقدیر کا کیا ہوگا؟ بائیکاٹ کے اعلان کے بعد دوپہر کے کھانے پر تو…
یہ 29 فروری 2008ء کی صبح تھی ۔ لیپ ایئر! ہر چار سال بعد یہ تاریخ آ تی ہے ۔کتنی قباحت اورنقص موجود ہے شمسی کیلنڈر میں مگر کاروبار زندگی اسی کے تحت چلایا جارہاہے!دنیا کو چھوڑیں اپنی بات کر تے ہیں ۔۔۔ اسکول اسمبلی اور سائنس کی کلاسز میں اس حوالے سے بریفنگ کروائی…
سفر G -25 کا ہو یا کسی بوئینگ طیارے کا! آ گہی کے نئے باب کھولتا ہے!! ایسے ہی ایک سفر کا ذکر ہے جس میں مسا فروںسے کھچا کھچ بھری مزدا اپنی منزل مقصود سے محض چند کلومیٹر کے فا صلے پر ایسی جگہ خراب ہو گئی جہاں اس روٹ پر چلنے والی واحد…
وہ بزرگ تھے اورسارے علاقے میں اپنی نیکی،پارسائی اور تقویٰ کی وجہ سے جانے جاتے تھے، ان کی وضع قطع اورچال ڈھال بھی ایک متقی شخص کی سی تھی ۔ تمام لوگ ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور بڑے بزرگ کا درجہ دیتے، وہ بھی اپنی بساط کے مطابق عوام کے دکھ درد…
تبدیلی کاجذبہ، ہر انسان کی جبلت میں پایا جاتا ہے۔ تبدیلی اور تحرک دراصل زندگی کا دوسرانام ہے۔ زندگی بیدار و متحرک ہو تو تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتی ہے ورنہ جمود، سستی اور غیر فعالیت قرار پاتی ہے۔ انسانوں کی اجتماعی کاوشیں تبدیلی میں کارگر ہوتی ہیں، اور دیرپا اور مضبوط تبدیلی تبھی آتی…
’’خواتین کے لئے بھی یہ ہی ہدا یات ہیں ۔ بس جہاں گا ہو گی کر لیں اور جہاں کا ہو کی کر لیں۔۔۔‘‘ دھیمے دھیمے لہجے میں شام کے جھٹ پٹے وقت کہی گئی بات پورے آ ڈیٹوریم میں شگفتگی بکھیر گئی۔ یہ تھے محترم لیاقت بلوچ جو ورکشاپ کے شر کا ء سے…
بعض ایونٹ ایسے ہوتے ہیں جن کو سوچا جائے تو ناک کے نتھنوں سے آکسجن جانے کے بجائے اک خوشگوار احساس جسم میں داخل ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے سارے وسوسے اور اندیشے باہر نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور روح پر ایک محبت کا ہیولا سا چھا جاتا ہے میں وہاں…
پلازمہ اور سرخ و سفید ذرات سے مزین خون اپنی کثافت کے لحاظ سے دنیا کے تمام علاقوں میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن جب یہ بہتا ہے تو اتنی تفاوت اس دنیا کو کیسے نظر آنے لگ جاتی ہے کہ کبھی ایسی چیخ و پکار کہ یہ چلتا خون سسک کر رہ جاۓ…
اس دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ایک وہ جو اپنے آپ کوحالات کے تھپیڑوں سے بچانے کے لیئے وقت کے ہاتھ اپنی لگام دے دیتے ہیں اور زندگی جیسی انمول چیز کو بے مقصدیت کی ڈھلوان پر ایسے چھوڑ دیتے ہیں کہ وقت رخصت انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ پستی و…
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم جانے والے کی شان میں قصیدہ گوئی اور مرثیہ نگاری تو خوب کرتے ہیں لیکن اس شخص کی زندگی میں اس کے افکار کی طرف توجہ دینے کی بجائے سنی سنائی باتوں اور افواہوں پر کان لگائے رکھتے ہیں ۔ قاضی حسین احمد رخصت ہوگئے، ملک کے…