ٹھیک تو کہا ہے کہنے والے نے کہ ” جب نامراد موسموں کی بے توقیر ہوائیں چلتی ہیں تو ٹڈی دل کا پہلا حملہ “حمیت” کے کھیتوں پر ہوتا ہے پھر ایک وبا پھوٹتی ہے جس کے زیر اثر رائے ساز لکھاری اور دانشور باور کرانے لگتے ہیں کہ محکوم لوگوں کو اہل جبر کی بے مہریا ں سر جھکا کر برداشت کر لینی چاہیئے کہ مقدر کا لکھا یہی ہے –پھت زرد رنگ کی ایک آندھی چلتی ہے اور اپنی تجوری میں ایٹم بم رکھنے والی کڑوروں کی قوم مکھیوں کی ایک اجتماعیت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اسلحہ خانے میں 15 ہزار ایٹمی ہتھیار رکھنے والی سپر پاور کو ڈر تھا کہ سات سال درندگی کی چکی میں پسنے والی نحیف و نزار لڑکی آزاد کر دی گئی تو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گی لہٰذا امریکی عوام کے تحفظ کے لئے اسے مزید 86 سال کسی کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے —-!!!!!
سوال تو یہ ہے کہ پرینڈیز یونیور سٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر نے والی حافظہ قرآن معصوم باحیا اور با کردار عورت کے اصل جرائم تھے تو کیا؟؟؟؟؟؟
وقت کی لوح پر درج ہے کہ شرق و غرب میں اظہار حق کل بھی جرم تھا اور آج بھی جرم ہے لیکن پورا مغرب اپنی تمام سفاکی کے ساتھ اور صیہونی عدالت نام نہاد ججوں کی دلیلوں کی روشنی میں یہ “جرم” عائد نہ کر سکی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اسکا اصل اور حقیقی جرم یہی تھا وہ بچیوں کو قرآن کی تعلیم دیتی تھی اور خواتین کو درس قرآن ، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اعلانیہ حمایت کا اظہار کرتی تھی
تاریخ یہ دور بھی رقم کر رہی ہے جب عورتیں میدان عمل میں فرض کفایہ ادا کرنے نکل کھڑی ہوئی ہیں 86 سال قید کی سزا سن کر اس ناتواں عورت نے طاغوتی نظام انصاف کا جنازہ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر وہ عظیم مثال قائم کی ہے جسے آنیوالی کئی نسلیں پراموش نہ کر سکیں گی –پاکستانی قوم تو تین معصوم بچوں کے ساتھ لاپتہ ہونے والی اپنی بیٹی سے بے خبر تھی وزارت داخلہ تردید اور ایف بی آئی امریکہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے کہ پھر یہ فرض کفایہ ایک خاتون ایوان ریڈلی نے ادا کیا وہ ان چار عرب باشندوں سے ملی جو بٹگرام جیل سے بھاگے تھے –انھوں نے خاتون کے حلیہ کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس پر اتنا تشدد ہوتا تھا کہ اسکی چیخوں کی وجہ سے اطراف کے قیدی کئی کئی رات سو نہیں پاتے تھے —یہ نو مسلم خاتون جو طالبان کی قید میں تھی اسلام کی روشنی سے سرفراز ہوئی تھی تنہا اسکی آواز نے سترہ کڑور کی خوابیدہ قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ قیدی نمبر 650 عافیہ صدیقی ہے اور میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن اور بیٹی کو غیر مسلمانوں کے ہاتھوں بیچ دے اور وہ اسے اسطرح تشدد کا نشانہ بنائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی عافیہ اپنے دھان پان سے جسم پر امریکی تشدد کی پے در پے ضربیں سہہ رہی ہے —سلام ہے اس پاکیزہ روح پر جسے ناپاک درندے نہ خرید سکے نہ شکست دے سکے ، نہ ڈرا سکے ، نہ جھکا سکے- سلام اس پیغام حق پر جو 86 برس کی سزا سننے کے بعد کڑوروں دلوں کی دھڑکن بن گیا ——اور
اسکا تقدس دلوں میں ہمیشہ قائم ہو گیا وہ جو امریکی شہریوں کو اسلام کی دعوت دیتی تھی اسکا داعیانہ کردار امر ہو گیا ایک استعارہ اور علامت بن گیا حق پسندوں کے لئے ، وہ بھیڑیوں کے دیس میں اعلٰی انسانی قدروں اور جذبہ جہاد سے سرشار ایک مومنہ عورت تھی –فرعوں اور ھامان کے ساتھی اپنا سارا کذب اور مسخر اکٹھا کر لائے مداری کا تماشہ ہوا استغاثہ کے گواہ خرید لئے گئے وہ ہار کے بھی جیت گئی کہ ایک جانب ایک ناتوان عورت کا ایمان ہے، اسکی استقامت ہے ، اسکی معرفت ہے اسکی بصیرت ہے ، اور دوسی جانب منافقوں اور بے ضمیروں کا بے وزن ہجوم — اسمیں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹڑ عافیہ کی استقامت اور پامردی سے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی روشنی کی کرنیں افق میں چار سو اجالا بکھیر رہی ہیں —اور راکھ کے ڈھیر سے چنگاریاں ہویدا پو رہی تھیں—–ایمان کی مضبوطی کا درس دیا ہے عافیہ نے مشرق مغرب میں سوئے ہوئے ایمانوں کو —-ظلم کو ظلم کہنا اور اسکی یہ ہولناک سزا پانا پھر بھی پائے استقلال میں جنبش نہ آنے دینا –وقت کے جابروں کو بہت سبق ملا ہے اسکی اسیری سے—-بلاشبہ عافیہ کا ہر لمحہ ابتلا ایک انقلاب کی نوید بن کر رہے گا —–اور اسکی مظلوم آہیں زندگی کے آثار پیدا کرینگی——کہ بلاشبہ آفتوں کی ماری ہوئی یہ قوم اب بھی زندگی کے آثار رکھتی ہے جسے فاقوں سے مارا گیا ہو جسے خوف سے مارا گیا ہو جسے دہشت سے ہلاک کیا گیا ہو جس پر ٹارگٹ کلرز چھوڑ دیئے گئے جسکی حمیت وائٹ ہاؤس میں تھال میں رکھ کر پیش کر دی گئی –جسکی عزت نفس کی امریکہ کے نیلام گھروں میں بولیان لگ رہی ہیں لیکن پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں ——زلزلے اور سیلاب جسکو شکست سے دوچار نہ کر سکے —–رات بلاشبہ گہری ہے لیکن ہر رات کی ایک سحر ہے اور ظلم کی کیمسٹری یہ ہے کہ جب حد سے بڑھتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے —عافیہ کی قید نے اس قوم کو غلامی سے نکلنے کا نیا درس دیا ہے ،سچ کو تسلیم کرنے کی تعلیم دی ہے وہ حضرت سمیہ اور حضرت آسیہ کی وارث جانتی ہے کہ زندگی بس یہی زندگی نہیں ۔ اور کامیابی بس یہاں کی مدح سرائی ہی نہیں یقینا وہ سلطنت اور ہے جسکے وارث اسکے نیک بندے ہونگے وہ اسی فوز عظیم کی طرف قدم بڑھا رہی ہے
بلاشبہ ظلم کے مقدر میں شکست ہے بلاشبہ یہ وقت یزیدوں کی مٹھی میں ہے اور عافیہ نے حسینی قبیلے کی توقیر بڑھادی ہے —-اور اب محمد بن قاسپ اور معتصم با للہ کی راہ پر چلنے والی اس نئی نسل کے پیامبر ہونگے—-
دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ جسکا ایک عنوان ڈاکٹر عافیہ قرار پائیں یہ جنگ جسکا ایجنڈا پوری دنیا میں دہشت پھیلانا ، خون بہانا اور اپنے گلوبل ولیج کے خوابوں کی تعبیر ہے اس ایجنڈے کی راہ میں اسلام اور مسلمان بڑی رکاوٹ ہیں — ڈاکٹر عافیہ کی طرح جو بھی اس ظلم کو للکارے گا اسے یہی قیمت ادا کرنی پڑے گی ورنہ اپنی دنیا بچانے کے لئے ایمان کا سودا کرنا ہوگا—-یا پھر اپنے ایمان کا ثبوت دیکر وہی جرم کرنا ہوگا جو ڈاکٹر عافیہ نے کیا
عافیہ جرم کے کٹہرے میں کھڑی ایک استعارہ ہے اور ہمیں اعلان کرنا ہوگا کہ ” ہم عادی مجرم ہیں “
فیس بک تبصرے