رات ہوتے ہوتے ہی
inbox
بھر جاتا ہے ،لیکن آج کی خاص بات یہ ایک ہی پیغام تھا جو بار بار موصول ہو رہا تھا ،ہر ایک سے موصول ہو رہا تھا، اور وہ خبر جو جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک اور ملک سے باہر جہاں جہاں تحریکی گھرانے ہیں آن کی آن میں پہنچ گئی
کہ”ہماری پیاری فیض آپا ہم سے رخصت ہو گئیں”- ہر ایک یہ خبر دوسرے کو دے کر گویا ان سے اپنے والہانہ تعلق کا اظہار کر رہا ہے یا خود کو یقین دلا رہا یے کہ واقعی یہ سانحہ ہو چکا ہے- 2مارچ کا سورج غر وب ہوتے ہوتے ان کی زندگی کا سورج بھی حرارت و توانائی کھو بیٹھا- ان کے ہزاروں چاہنے والے غم و الم میں ڈوبے ہوئے رب کی رضا پر راضی ان کے لئے دستِ دعا دراز کئے ہوئے ۔۔۔۔۔ ہر ایک کی کتنی الگ نسبت تھی ان سے۔اس کا اندازہ صبح ان کے جنازے کے اجتماع کے موقع پر ہوا– ایسے موقع پر تعزیت کے لئے آنے والے پسماندگان سے اظہارِتعزیت کرتے ہیں،انہیں دلاسہ دے کر صبر کی تلقین کرتے ہیں
-، لیکن یہاں تو منظر ہی جدا ہے، تحریکی ساتھی ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھا رہےہیں،لگ رہا ہے کہ ہر ایک کا غم جدا ہے جو دوسرے سے بڑھ کر ہے۔۔۔ لوگوں کا جم غفیر ہے، لوگ آ رہے ہیں اور تعزیت کر کے جا رہے ہیں —–
لیکن ہجوم کم نہیں ہو رہا -اطراف میں کہیں پارکنگ کی جگہ نہیں — اس وقت شہر بھر کے ذمہ داران کا رخ ایک ہی سمت ہے۔۔۔۔۔فیض آپا کی رہائش گاھ کی طرف کہ۔۔۔۔۔ ان کے چاہنے والے ان کے آخری دیدار سے محروم نہ رہ جائیں
یہ خراجِ تحسین اس نصف صدی کی جدوجہد کو خراج تحسین ہے جس کا نام فیض النساء تھا– 1976 ء میں رکنیت منظور ہونے اور حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے حلف کے تقاضوں کو جس طرح سمجھا اور ان کا حق ادا کیا اور جو ذمہ داری دی گئ اس کے لئے اپنا تن من دھن جس طرح قربان کیا یہ سعادت کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے
مقامی شورٰی سے مرکزی شورٰی تک کی بارعب آواز، بے لاگ اپنی رائے رکھنے والی کھنے والی، مداہنت سے کوسوں دور، جو حق جانا دلیل کے ساتھ پیش کیا چاہے
دوسرے ہم آواز ہیں بھی یا نہیں ۔۔۔ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا پھر شورٰی کے فیصلوں پر راضی رہنا — اراکین جماعت کو ان کی اصابت رائے پر اتنا بھروسہ تھا کہ ہر سطح کی شورٰی کا وہ لازمی جز تھیں اور اصابتِ رائے کی اس امانت کا حق ادا کرنا بہت سوں نے ان سے ضرور سیکھا ہوگا
ان کی تعزیت کے لئے اکٹھے ہو نے والے ان سے اپنی کن کن نسبتوں کا ذکر کر رہے تھے-روتے ہوئے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہویئ تھی، ایک ایک کو بتا رہی تھی وہ کہ ” وہ میری استاد تھیں-” کتنے ہزاروں لوگ ان کلاسوں سے مستفید ہوئے جو وہ مختلف حلقوں میں اپنی ناسازئ طبع کے باوجود تسلسل سے لیتی رہیں -دو دہائیوں قبل جب جماعت میں ان سے شناسائی ہوئی تب سے میں نے انہیں شدید بیمار ہی پایا
سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا– لیکن یہ جسمانی عارضہ ان کے پایہء استقلال میں کبھی لغزش نہ لا سکا –بڑے بڑے عوامی اجتماعات میں جہاں کثیر تعداد میں خواتیں ہوتیں ان کا خطاب پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا، کہ اظہارِبیان کی بے پناہ صلاحیت رب نے عطا فرمائی تھی جس کو حق کے پرچار کے لئے خوب خوب انہوں نے استعمال کیا –سانس ٹوٹ ٹوٹ جاتی تو عوامی حلقوں سے معذرت کرنے لگی تھیں لیکن تنظیمی فورمز پر پھر بھی ان کے درس و تدریس جاری رہے
سلیقے سے کاٹن کی ساڑھی میں لپٹا فیض آپا کا وجود حرکت اور عزمِ مصمم کا دوسرا نام تھا جس ذمہ داری پر تحریک نے لگا دیا وہاں یوں فٹ ہو گئیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔۔۔۔
ان کی سیاسی جدوجہد ان کی تحریکی زندگی کا بڑا جاندار باب ہے عبدالستار افغانی مرحوم و مغفور کے دور سے ان کی سیاسی جدوجہد، کہ بحیثیت کونسلرجب انہیں صحت و تعلعم کی کمیٹی میں ڈالا گیا تو اسکولوں کی سپر وژن کی ذمہ داری انہوں نے جس خوبی سے نبھائی اور اساتذہ اور طالبعلموں کو جس طرح درس و تبلیغ کے ذریعے اقامتِ دین کے وسیع تر تصور سے روشناس کروایا وہ انھی کی انتھک جدوجہد کا ایک روشن باب ہے
جب حلقہ خواتین نے اداروں کی ضرورت کو محسوس کیا اور بتدریج اداروں کا قیام عمل میں آیا تو ادارہ کے اصول و ضوابط بنانے اور ان کے استحکام میں ان کا بڑا نمایاں کردار رہا، چاہے وہ وہ تعلیمی ادارے ہوں یا جیلیں، جیل میں کام جو خواتین کے لئے نسبتاً مشکل ٹاسک ہے، فیض آپا کی اس فیلڈ میں کارکردگی آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ کا کام کرتی رہے گی
—جیل میں عورتوں اور بچوں کی دگرگوں حالت ان سے دیکھی نہ گئی، انہوں نے جیل کے ذمہ داران سے رابطے کئے اور کسی حد تک انہیں عورتوں اور بچوں کی بہبود کے لئے قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔۔۔۔ جیل میں بالخصوص وہ عورتیں جو ماں بننے کے مراحل میں ہوتی تھیں، ان کے لئے ان کی دوڑ دھوپ قابلِدید ہوتی تھی -وہ ان مسئلوں میں یوں ہلکان رہتی تھیں جیسے ان کے گھر کا مسئلہ ہو– جس حد تک ممکن ہوتا وہ اپنے ذاتی وسائل سے بھی زچہ و بچہ کو سہولت پہنچانے کا اہتمام کرتیں، اور جیل انتظامیہ کو بھی مجبور کرتیں- وہ حق کی آواز تھیں اور ہر جگہ سنی جاتیں- اسی لئے اللہ نے ان کو بہت اکرام سے نوازا تھا–جیلوں میں انکی دعوت و تذکیر سے کتنی مجرمانہ زندگیاں تھیں جو دیکھتے ہی دیکھتے شائستہ و باوقار زندگی کی طرف لوٹ آئیں- جیلوں میں اسکارف اور قرآن و لٹریچر پہنچانا، ان کی جسمانی ضرورت کے ساتھ انکو نارِجہنم سے بچانے کی فکر کرنا۔۔۔۔۔ اس فکر نے انکو ہمیشہ بے چین و مضطرب رکھا –
ان کی مومنانہ زندگی کا مظہر ان کی پر امید زندگی تھی-جیل کی زندگی میں سہولتیں مہیا کرنا اور ان کو مجرمانہ زندگی سے نکالنا ہو یا تعلیمی اصطلاحات یا حلقہ جات کے درس و تدریس ۔۔۔۔ وہ ہمیشہ افراد سے پر امید رہتیں کہ حق کی دعوت انہیں پہنچی ہی نہیں، یہ ہماری کوتاہی ہے، اللہ کے بندے ضرور اللہ کی طرف پلٹیں گے—
اپنے چھوٹوں کو محبت کے ساتھ جو احترام وہ دیتی تھیں اس سے ہر ایک انکا گرویدہ ہو جاتا تھا- اسلام سے ان کی وفاداری، تحریک کے مختلف مراحل میں ان کی نظریاتی یکسوئی، معاملات میں کھرا پن، تعلقات میں خلوص کی مٹھاس، بلاشبہ ان کے تحریک کے سچے مزاج شناس ہونے کی گواہی ہے–
غرض ہماری فیض آپا اپنی ذات میں انجمن، اپنی سوچ اور فکر میں بھر پورتحریک اور انقلاب تھیں–ان کی زندگی کے دفتر کے بہت سے گوشوں سے اس تحریر میں پردہ نہیں اٹھ سکا ہے، لیکن انکی شخصیت کے حوالے سے یہ بات بلاشبہ کہی جا سکتی ہےکہ ” بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
—
فیس بک تبصرے